تعجب ہے بلوچستان کے نئے وزیراعلی کے انتخاب کا فیصلہ کب ،کہاں اور کیسے کیا گیا،

چند سو ووٹ لینے والے کو ایک کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پر مسلط کرنا جمہوری عمل کی نفی ہے، ملک کے حساس ترین صوبے پر کٹھ پتلی وزیراعلی بیٹھا دینا سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ،یہ عوام کے حقِ حکمرانی کی توہین کے مترادف ہیں،کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے تبدیلی لانے کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ عوامی شعور کو بیدار کر کے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا اجلاس میں اظہار خیال

جمعرات 18 جنوری 2018 15:44

تعجب ہے بلوچستان کے نئے وزیراعلی کے انتخاب کا فیصلہ کب ،کہاں اور کیسے ..
لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 جنوری2018ء) مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے کہا ہے کہ تعجب ہے بلوچستان کے نئے وزیراعلی کے انتخاب کا فیصلہ کب ، کہاں اور کیسے کیا گیا،چند سو ووٹ لینے والے شخص کو ایک کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پر مسلط کرنا جمہوری عمل کی نفی ہے، ملک کے حساس ترین صوبے پر کٹھ پتلی وزیراعلی بیٹھا دینا سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے ،یہ عوام کے حقِ حکمرانی کی توہین کے مترادف ہیں،کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے تبدیلی لانے کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ عوامی شعور کو بیدار کر کے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے ۔

جمعرات کو مسلم لیگ ن، پختونخوا ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کا اعلی سطح کااجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر،احسن اقبال،خواجہ سعد رفیق،پرویز رشید،مریم اورنگزیب،عبدالقادر بلوچ،میر حاصل بزنجو،محمود خان اچکزئی،مریم نواز شریف،سردار یعقوب ناصر،عبدالمالک بلوچ،رانا ثنا اللہ،عبدالرحیم زیارت وال،جمال شاہ کاکڑ،رکن صوبائی اسمبلی انیتہ عرفان،کشور جتک،ثمینہ خان،سردار در محمد اور نصیب اللہ بازئی شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

اجلاس میں بلوچستان میں لائی گئی تحریک عدم اعتمادپر تفصیلی گفتگو ہوئی۔اجلاس کے شرکا نے بتایا کہ تحریک عدم اعتماد کا فیصلہ ہمارے علم میں لائے بغیر کسی جواز کے بغیر کیا گیا ۔اراکین نے کبھی بھی اس حوالے سے کسی بھی سطح پر اس ضمن میں نشاندہی نہیں کی اور وہ اراکین اس سوال کا جواب دینے سے بھی قاصر ہیں کہ الیکشن سے چار ماہ پہلے اس امر کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

اجلاس کے شرکا نے تعجب کا اظہار کیا کہ بلوچستان کے نئے وزیراعلی کے انتخاب کا فیصلہ کب ، کہاں اور کیسے کیا گیا۔چند سو ووٹ لینے والے شخص کو ایک کروڑ سے زائد آبادی کے صوبے پر مسلط کرنا جمہوری عمل کی نفی ہے۔ ملک کے حساس ترین صوبے پر کٹھ پتلی وزیراعلی بیٹھا دینا سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ اجلاس کے شرکا نے کہا کہ اس طرح کے عمل سے نہ صرف بلوچستان کے لوگوں کے بنیادی جمہوری حقوق سلب ہوئے ہیں بلکہ اس طرح کے اقدام آئین میں دئیے گئے عوام کے حقِ حکمرانی کی توہین کے مترادف ہیں۔

اجلاس میں تینوں سیاسی جماعتوں کی قیادت نے عہد کیا کہ محلاتی سازشوں کے ذریعے تبدیلی لانے کا نہ صرف مقابلہ کیا جائے گا بلکہ عوامی شعور کو بیدار کر کے اس طرح کے واقعات کی روک تھام کی جائے گی۔شرکا نے کہا کہ جس طرح ووٹ کے تقدس کو بار بارمجروح کیا جاتا ہے اور عوام کے فیصلوں کے اوپر چند لوگوں کے فیصلے مسلط کیے جاتے ہیں اس کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔

بلوچستان جہاں سیاسی استحکام کی ضرورت سب سے زیادہ تھی وہاں بلوچستان کی جمہوری قیادت کی سیاسی بصیرت اور مفاہمتی عمل کے ذریعے اسے حاصل کر لیا گیا تھا اور بلوچستان کو قومی دھارے میں شامل کر لیا گیا تھا ،اسے رات و رات محلاتی سازشوںکی نذر کر دیا گیا۔اس طرح کے غیر جمہوری اقدام کو بلوچستان کے عوام اپنی توہین تصور کرتے ہیں۔جمہوری قوتیں اس طرح کے غیر جمہوری اور غیر آئینی اقدام کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

متعلقہ عنوان :