رائو انوار پر مبینہ خود کش حملے کا مقدمہ حکومتی مدعیت میں درج کر لیا گیا

مقدمے قاتلانہ حملہ، مقابلہ، املاک کو نقصان پہنچانا، ایکسپلوزیو اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل ہیں مجھ پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کالعدم جماعت سے تھا، کراچی میں اب بھی دہشتگردوں کا نیٹ ورک فعال ہے،ایس ایس پی ملیر

بدھ 17 جنوری 2018 17:01

رائو انوار پر مبینہ خود کش حملے کا مقدمہ حکومتی مدعیت میں درج کر لیا ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 جنوری2018ء) ایس ایس پی ملیر رائو انوار پر مبینہ خود کش حملے کا مقدمہ حکومتی مدعیت میں درج کر لیا گیا جس میں قاتلانہ حملہ، مقابلہ، املاک کو نقصان پہنچانا، ایکسپلوزیو اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعات شامل ہیں۔ 13 جنوری کو راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹان میں مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا اور محض دو دن بعد ہی ان کے قافلے پر حملے کی اطلاع سامنے آئی۔

شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس کی کارروائی کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ پولیس نے خفیہ اداروں کی اطلاع پر ایک گھر پر چھاپہ مارا تھا جہاں دہشت گردوں نے اہلکاروں پر فائرنگ شروع کردی اور جوابی فائرنگ میں 4 دہشت گرد مارے گئے تھے۔ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ان پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کالعدم جماعت سے تھا۔

(جاری ہے)

ان کا مزید کہنا تھا کہ دہشت گردوں نے پہلے بھی کئی مرتبہ کراچی میں متعدد افسران و اہلکاروں کو نشانہ بنایا جبکہ یہ دہشت گرد پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی کارروائیاں کر چکے ہیں۔ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ کچھ روز پہلے خیبر پختونخوا کے علاقے لنڈی کوتل پر بھی پولیس افسر کو ہدف بنایا گیا تھا جبکہ کوئٹہ میں بھی دہشت گردوں نے صوبائی اسمبلی کے پاس فورسز کو نشانہ بنایا۔

ایس ایس پی ملیر راو انوار نے بتایا کہ شہرِ قائد میں اب بھی دہشتگردوں کا نیٹ ورک فعال ہے۔انہوں نے کہا کہ مجھ پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں نے ذمہ داری بھی قبول کرلی، واقعے کا مقدمہ درج ہوچکا ہے اور اس میں مذید تحقیقات جاری ہے۔خیال رہے کہ 16 جنوری کو ہونے والے حملے سے قبل 2 مئی 2015 کو بھی ایس ایس پی ملیر کے قافلے پر دستی بم سے حملہ کیا گیا تھا تاہم وہ اس میں بھی محفوظ رہے تھے، جبکہ جوابی کارروائی میں 5 حملہ آور مارے گئے تھے۔یاد رہے کہ راؤ انوار کراچی میں متعدد بار ایسے پولیس انکانٹر کر چکے ہیں جن میں کئی افراد مارے گئے جبکہ ان مبینہ مقابلوں میں کسی پولیس اہلکار کو خراش تک نہیں آئی، یہی وجہ ہے کہ انہیں 'انکانٹر اسپیشلسٹ' کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔