امریکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیزکردیں

نیٹواتحادی ممالک کی جانب سے افغانستان میں تعاون ختم کرنے کی دھمکیوں پر امریکی شدید پریشانی کا شکار ہیں‘ افغانستان میں جاری جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر لڑنا ممکن نہیں اور پاکستان کی جانب سے عدم تعاون کی پالیسی سے افغانستان میں موجودامریکی اور اتحادی افواج کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں-پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹرمیاں محمد ندیم کی تجزیاتی رپورٹ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 17 جنوری 2018 11:51

امریکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیزکردیں
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔17 جنوری۔2018ء)امریکا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کوششیں تیزکردی ہیں- صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیان سے دونوں ممالک کے درمیان ابھرنے والی سول اور عسکری کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ایک طرف امریکا کی اعلی عسکری قیادت کی جانب سے رابطے کیئے جارہے ہیں تو دوسری جانب اعلی سطحی امریکی وفود کی پاکستان آمد کا سلسلہ جاری ہے -نائب امریکی وزیرخارجہ ایلس ویلز بھی پاکستان کے دورے پرہیں جس کے بعد امریکی وزیرخارجہ کا دورہ متوقع ہے اور کہا جارہا ہے کہ رواں سال امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران ممکنہ طور پر ان کا پاکستان کا دورہ بھی شیڈول کیا جاسکتا ہے-امریکی نائب وزیرخارجہ نے پاکستانی حکام سے ملاقات میں واضح کیا کہ امریکا پاکستان سے نئے خطوط پر تعلقات کا خواہش مند ہے جس کی بنیاد دوطرفہ مفادات پر ہو۔

(جاری ہے)

تاہم ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ پاکستانی اپنی جغرافیائی دائرے میں موجود حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں کرے۔اس سے پہلے امریکی فوج کے اعلیٰ عہدیداران آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کرکے صدر ٹرمپ کے بیان سے پیدا ہونے والی کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ ایلس ویلز کا دورہ بھی اس ہی کی ایک کڑی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے پاکستان کی عسکری قیادت کا موقف دوٹوک اور واضح ہے جس کی وجہ سے امریکی حکام پریشانی کا شکار ہیں پاکستان کی عسکری قیادت نے پغام دیا ہے کہ امریکی صد ر اور حکومتی عہدیداران کی جانب سے پاکستان پر مسلسل دباﺅ اب برداشت نہیں کیا جائے گا اور امریکا کو اتنا ہی تعاون فراہم کیا جائے گا جس کا وہ حقدار ہے -امریکا کے عسکری حلقوں میں تشویش اس لیے پائی جارہی ہے کہ افغانستان میں جاری جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر لڑنا ممکن نہیں اور پاکستان کی جانب سے عدم تعاون کی پالیسی سے افغانستان میں موجودامریکی فوجوں اور جنگی سازوسامان کو نکالنا ممکن نہیں ہے‘اسی طرح خفیہ اطلاعات کے تبادلے کے معاہدے سے امریکی اور اتحادی فوج کے لیے ”آنکھوں“کی حیثیت رکھتا ہے اور پاکستان کی جانب سے شیئرکی جانے والی انٹیلی جنس رپورٹس نے امریکا اور نیٹو اتحادی افواج کو بڑے جانی ومالی نقصان سے بچایا ہے -ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ امریکا پر نیٹواتحادی افواج کا بھی بہت دباﺅ ہے اور کئی ممالک نے اپنی فوجیں نکالنے اور افغانستان میں تعاون ختم کرنے کی بات امریکا پرواضح کیا ہے کہ نیٹواتحادی افواج پاکستان کی ناراضگی کا خطرہ مول نہیں لے سکتیں یہی وجہ ہے امریکا کے علاوہ کئی اتحادی ممالک بھی پاکستان سے رابطے میں ہیں اور پاکستان کی ناراضگی دور کرنے کے لیے امریکا پر دباﺅ بھی بڑھا رہے ہیں -اسی دوران پاکستان کی جانب سے بھی واضح پیغام دیا گیا کہ پاکستان بھی امریکا سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے لیکن یہ صرف اس وقت ہی ممکن ہے جب دونوں جانب اعتماد اور عزت کے جذبات ہوں۔

امریکا نے پاکستان کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا-امریکا اس بات سے بھی پریشان ہے کہ چین‘روس ‘پاکستان اور ایران کی بڑھتی ہوئی قربتوں سے خطے میں ایک نیا بلاک تشکیل پائے گا جو خطے میں امریکی اثرورسوخ پر کاری ضرب لگا سکتا ہے سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان اور ایران کی قربت سے جہاں امریکا کے اتحادی بھارت کی پوزیشن کمزور ہوگی وہیں خطے کے دیگر ممالک فطری طور پرنئی قوتوں کے زیراثرآجائیں گے اور امریکا کو ویت نام سے بھی زیادہ شرمناک طریقے سے افغانستان چھوڑ کر بھاگنا پڑے گا-طویل جنگ سے تھکے امریکا اور اس کے نیٹو اتحادی اسی وجہ سے افغان طالبان سے جاری خفیہ مذکرات کو منظرعام پر لانے لگے ہیں اور افغانستان میں ایک نیا سیٹ اپ نظرآرہا ہے کہ افغان طالبان کے زیراثرعلاقوں کی بجائے امریکا اور اتحادی فوجوں کی کاروائیاں کابل کے گردونواح تک محدود ہوکررہ گئی ہیں-