سندھ پولیس کے نظام سے مطمئن نہیں ہوں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری

پیر 15 جنوری 2018 23:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 جنوری2018ء) چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ سندھ میں پولیس کے نظام سے مطمئن نہیں ہوں اور اس میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قصورواقعہ بین الاقوامی میڈیا میں بھی زیر بحث رہا لیکن تعلیم کے ذریعے بچوں کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ قصورجیسے واقعات پاکستان میں جگہ جگہ ہو رہے ہیں اور ان واقعات کی مستقل بنیادوں پرروک تھام ضروری ہے۔انہوں نے کہا کہ اور چاروں صوبے بچوں سے متعلق معلومات نصاب میں شامل کریں، پہلے ہم ایسے معاملات پر بولنے سے ڈرتے تھے اور اب نہ بول کر ڈرتے ہیں۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ نصاب تعلیم میں کچھ ایسی چیزیں شامل کی جائیں جن کے ذریعے اسکولوں میں بچوں کو خود اپنی حفاظت کرنے کی تربیت فراہم کی جا سکے، اور اس حوالے سے سماجی تنظیمیں حکومت سندھ کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔

(جاری ہے)

سندھ پولیس سے متعلق پوچھے گئے سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ میں پولیس کے نظام سے مطمئن نہیں ہوں، وزیراعلیٰ سندھ سے کہا ہے کہ پولیس کا نظام بہت پرانا ہو چکا ہے اس میں اصلاحات ضروری ہیں، تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی بیٹھ کر پولیس قوانین میں اصلاحات کریں۔انہوں نے کہا کہ ہم 2009 سے بچوں کو محفوظ بنانے سے متعلق پروگرام پر کام کر رہے ہیں، چاہتے ہیں باقی صوبے بھی ڈرختم کریں اور اس پروگرام پر عمل کریں۔

چیئرمین تحریک انصاف کے حوالے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ عمران خان نے ہر موقع پر اپنے اثاثے مختلف بتائے، خان صاحب نے جب پہلا الیکشن لڑا تو اپنے اثاثے ظاہر نہیں کیے، پھر 2002 میں پرویز مشرف کی ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران خان نے اپنے اثاثے ظاہر کیے۔بلاول بھٹو زرداری نے مزید کہا کہ عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں اپنے اثاثے کچھ بتائے اور سپریم کورٹ میں انہوں نے کچھ اور بتایا۔

بلاول بھٹونے کہا کہ میں ابھی منتخب نمائندہ نہیں ہوں، جب الیکشن لڑوں گا تو اپنے تمام اثاثے ظاہر کروں گا۔چیئرمین پیپلز پارٹی نے بلوچستان حکومت گرانے کا الزام مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ہمارا ایک بھی ایم پی اے نہیں ہے لیکن آئندہ حکومت میں پوری بلوچستان اسمبلی پیپلز پارٹی کی ہوگی۔انہوں نے مزید کہا کہ نواز شریف نے بلوچستان کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے بلوچ عوام وفاقی جماعت کے لیے ترس گئے۔