تمام صوبائی اسمبلیاں اتفاق رائے سے ڈیم بنانے کی قراردادیں منظور کرائیں، مراد علی شاہ

کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنا سندھ کے لیے بہت اہم مسئلہ ہے، ۔ کالا باغ ڈیم اب نہیں بنے گا ، پانی کی چوری روکنے کے لیے نہروں پر رینجرز تعینات کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے ،محکمہ آب پاشی پہلے ہی پولیس کے تعاون سے نہروں کی نگرانی کر رہا ہے ،سندھ اسمبلی میں وقفہ سوالات کے جواب

پیر 15 جنوری 2018 22:45

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 جنوری2018ء) وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ کوٹری بیراج کے نیچے پانی نہ چھوڑنا سندھ کے لیے بہت اہم مسئلہ ہے ۔ سندھ اسمبلی اس مسئلے پر تفصیلی بحث کرے تاکہ وفاق سے کہا جا سکے کہ وہ کوٹری بیراج کے نیچے پانی چھوڑے کیونکہ نہ جانے کی وجہ سے دریائے سندھ کا ڈیلٹا اور ساحلی زمینیں تباہ ہو رہی ہیں ۔

یہ کالا باغ ڈیم سے بھی زیادہ اہم مسئلہ ہے ۔ کالا باغ ڈیم اب نہیں بنے گا ۔ سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا اپنی اپنی اسمبلیوں میں ایک بار پھر قرار داد منظو رکرائیں کہ اتفاق رائے کے بغیر کوئی بڑا ڈیم نہیں بنے گا ۔ سندھ اسمبلی کوٹری بیراج سے نیچے پانی چھوڑنے کی قرار داد منظو رکر ے ۔ نیب کورٹ نے روہڑی کینال کو بند کرا دیا ۔

(جاری ہے)

جس سے لوگوں کو بہت نقصان ہوا ۔

نہروں سے پانی کی چوری روکنے کے لیے رینجرز تعینات کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔ سکھر بیراج کے بارے میں عالمی بینک کے تعاون سے اسٹڈی جاری ہے ۔ انہوں نے یہ باتیں پیر کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں محکمہ آب پاشی سے متعلق وقفہ سوالات کے دوران متعدد ارکان کے تحریری اور ضمنی سوالوں کے جوابات میں کہی ۔ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد اور دیگر ارکان نے اس مسئلے پر بحث کرنے کی وزیر اعلیٰ کی تجویز سے اتفاق کیا ۔

وزیر اعلیٰ سندھ نے بتایا کہ پانی کی چوری روکنے کے لیے نہروں پر رینجرز تعینات کرنے کی کوئی تجویز نہیں ہے ۔ محکمہ آب پاشی پہلے ہی پولیس کے تعاون سے نہروں کی نگرانی کر رہا ہے ۔ پانی چوری ہوتا ہے لیکن اس پر کارروائی بھی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ سکھر بیراج میں 38 ایکڑ کا ایک مصنوعی جزیرہ بنایا گیا تھا ، جس کی وجہ سے نظام آب پاشی کو کوئی نقصان نہیں ہو رہا ۔

انہوں نے کہا کہ 1932 ء میں بیراج کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد یہ پتہ چلا کہ دائیں کنارے کی نہروں ( دادو کینال ، رائس کینال اور اینڈ ڈبلیو کینال ) میں بڑے پیمانے پر ریت جمع ہو رہی تھی ۔ 1938 ء میں پونا انڈیا کے ہائیڈرولک ماڈل کے پیش نظر سکھر بیراج میں بھی 66 گیٹس میں سے 10 گیٹس بند کر دیئے گئے اور ایک مصنوعی جزیرہ بنایا گیا تاکہ گیٹ نمبر 6 سے گیٹ نمبر 14 تک ریت جمع نہ ہو سکے ۔

اس مصنوعی جزیرے سے نظام آب پاشی کو کوئی نقصان نہیں ہوا ہے ۔ عالمی بینک کے تعاون سے اسٹڈی کرا رہے ہیں ۔ یہ اسٹڈی مکمل ہونے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ سکھر بیراج کی جگہ نیا بیراج بنایا جائے یا اس کی ری ماڈلنگ کی جائے ۔ اس کے لیے کئی سو ارب روپے درکار ہوں گے ۔انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کی شکایت پر قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے روہڑی کینال کو بند کر ادیا تھا ۔

نیب کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ اس سے لوگوں کوکتنا نقصان ہوا ۔ تمام نہروں میں پانی دیا جا رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2010 ء کے سیلاب کے بعد دریائے سندھ کے بندوں کو مضبوط کرنے کے لیے 170 اسکیمیں شروع کی گئیں ، جن پر 18 ارب 29 کروڑ روپے خرچ ہوئے ۔ ان اسکیموں کے لیے فنڈز ایشیائی ترقیاتی بینک اور حکومت سندھ نے مہیا کیے تھے ۔ اس میں 16 ارب 60 کروڑ روپے ایشیائی ترقیاتی بینک اور ایک ارب 85 کروڑ روپے سندھ حکومت نے فراہم کیے ۔

ایشیائی ترقیاتی بینک سے یہ رقم قرضے کے طور پر لی گئی تھی ، جسے 20 سے 25 سال میں واپس کرنا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 2007-08 ء میں سندھ اسمال ڈیمز آرگنائزیشن قائم کی گئی تھی ، جس نے اب تک نگر پارکر اور کوہستان ریجن میں 57چھوٹے ڈیم تعمیر کیے ہیں اور مزید30 چھوٹے ڈیمز پر کام جاری ہے ۔ کراچی سمیت پورے صوبے میں مزید چھوٹے ڈیمز بنائے جا سکتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی کے کم بہاؤ کی وجہ سے صوبہ سندھ میں دریاء کے ڈیلٹا کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔

لاکھوں سالوں سے دریاء کے بہاؤ کے ساتھ ریت جمع ہو رہی ہے ۔ آب پاشی کے مقاصد کے لیے پانی کے استعمال کی وجہ سے بحیرہ عرب میں کم پانی جا رہا ہے ، جس کی وجہ سے ریت جمع ہونے کا عمل بڑھ گیا ہے اور سمندر کا پانی ڈیلٹا میں اوپر چڑھ آیا ہے ۔ ساحلی علاقے کی زرخیز زمینیں تباہ ہو رہی ہیں ۔ حکومت سندھ مسلسل انڈس ریور سسٹم اتھارٹی ( ارسا ) پر زور دے رہی ہے کہ وہ کوٹری بیراج سے نیچے دریائے سندھ میں پانی چھوڑے تاکہ دریائے سندھ کے ڈیلٹا کو بچایا جا سکے اور تیمر کے جنگلات میں اضافہ کیا جا سکے ۔ #