بے نظیر بھٹو پر 2007 میں حملہ طالبان نے کیا تھا ،ْ

تازہ کتاب میں کالعدم تنظیم نے ذمہ داری قبول کرلی سعید نامی شدت پسند نے پہلے بے نظیر بھٹو پر فائرنگ کی ،ْ گولی سابق وزیر اعظم کے گلے میں لگی ،ْ پھرشدت پسند نے خود کو دھماکہ سے اڑا لیا سعد کا ساتھی اکرام اللہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا ،ْ اب زند ہ ہے ،ْ بے نظیر کو مشرف حکومت نے کراچی حملوں کے باوجود مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی تھی ،ْ طالبان حملہ آوروں کو آسانی سے بے نظیر تک رسائی ممکن ہوگئی تھی ،ْ کتاب میں انکشافات

پیر 15 جنوری 2018 16:01

بے نظیر بھٹو پر 2007 میں حملہ طالبان نے کیا تھا ،ْ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جنوری2018ء) کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے ایک تازہ کتاب میں پہلی مرتبہ تسلیم کیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو پر 2007 میں حملہ طالبان نے کیا تھا ۔بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007 کو راولپنڈی میں ایک جلسے سے خطاب کے بعد فائرنگ اور خود کش حملے میں جاں بحق ہوگئی تھیں۔

اس وقت پرویز مشرف کی حکومت نے کالعدم تحریک طالبان کے سربراہ بیت اللہ محسود کو واقعہ کا ذمہ دار قرار دیا تھا لیکن طالبان نے اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی ۔ اب طالبان نے اپنی ایک کتاب میں اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ‘‘انقلاب محسود فرنگی راج سے امریکی سامراج تک’’ نامی کتاب میں کہا گیا کہ بلال نامی ایک شدت پسند جس کو سعید کے نام سے بھی جانا جاتا تھا اور دوسرے شدت پسند اکرام اللہ کو بے نظیر بھٹو پر حملے کیلئے بھیجا گیا تھا۔

(جاری ہے)

کتاب کے مطابق سعید نے پہلے بے نظیر پر فائرنگ کی جس سے ان کو گلے میں گولی لگی اور بعد میںاپنے جسم سے نصب بم سے دھماکہ کیا ،ْاکرام اللہ حملے کے بعد وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوگیا اور وہ اب بھی زندہ ہے۔ کتاب ابو منصور عاصم مفتی نور ولی نے لکھی ہے جس کے بارے میں طالبان کے ایک رہنما نے بتایا کہ وہ کالعدم طالبان تحریک کے سربراہ بیت اللہ محسود کے معتمد ساتھیوں میں سے تھے ،ْ 588 صفحات پر مشتمل کتاب کو افغانستان کے صوبے پکتیکا کے برمل کے علاقے میں چھاپا گیا ،ْ پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کی طرف سے اکثر یہ موقف سامنے آیا کہ محسود طالبان پکتیکا اور پکتیا صوبوں میں موجود ہیں۔

کتاب میں یہ بھی کہا گیا کہ اکتوبر 2007 میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے جلسے میں خود کش حملے بھی طالبان کے شدت پسندوں نے کئے تھے جس میں 140 کے لگ بھگ لوگ جاں بحق ہوئے تھے ۔ کتاب کے مطابق دو حملہ آوروں نے منصوبہ سازوں کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلوس کے اندر دھماکے کئے حالانکہ ان کو سٹیج کے قریب رہنے کا کہا گیا تھا ۔حملوں میں بے نظیر بھٹو محفوظ رہی تھی۔

کتاب میں کہا گیا کہ تین دن بعد لاڑکانہ میں بھی حملے کا پروگرام بنایا گیا تھا لیکن طالبان میں موجود ایک جاسوس نے پولیس کو معلومات فراہم کیں جس کی وجہ سے منصوبہ ناکام ہوگیا تھا۔ کتاب میں کہا گیا کہ بے نظیر کو مشرف حکومت نے کراچی حملوں کے باوجود مناسب سیکیورٹی فراہم نہیں کی تھی اس وجہ سے طالبان حملہ آوروں کو آسانی سے بے نظیر تک رسائی ممکن ہوگئی تھی۔

کتاب کے مطابق طالبان تحریک کے بانی بیت اللہ محسود نے بے نظیر بھٹوکے قتل کی منظوری دی تھی کیونکہ طالبان رہنماؤں کا خیال تھا کہ بے نظیر کو امریکا نے ایک منصوبے کے تحت شدت پسندوں کے خلاف کاروائیوں کیلئے پاکستان بھیجا ہے۔طالبان کے ایک سابق رہنما کے مطابق کتاب میں اکثر معلومات درست ہیں اور مصنف بیت اللہ محسود کے قریبی دوست تھے ۔یاد رہے کہ بیت اللہ 2009 میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔