دو ماہ لگیں یا تین ماہ ہر صورت میں کراچی سے ٹینکرز مافیا کا خاتمہ کریں گے، اپنے فیصلوں پر خود عمل درآمد کرائیں گے

ٹینکرز سے متعلقہ پانی کی فراہمی بند ہونی چاہئے،اگر ٹینکرز والے ہڑتال کریں تو ہمیں بتایا جائے، ہمیں ان سے نمٹنا آتا ہے اضافی دودھ کے لئے بھینسوں کو لگائے جانے والے انجیکشن فوری ضبط کئے جائیں، ٹی وائٹنر ہر گز دودھ نہیں، لکھ کر دینا ہوگا کہ ٹی وائٹنر دودھ نہیں،چیف جسٹس سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں تین مقدمات کی سماعت

اتوار 14 جنوری 2018 22:10

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 جنوری2018ء) سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اتوار کے روز 3 مقدمات کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے آلودہ پانی اور ماحولیاتی آلودگی، کثیر المنزلہ عمارتوں اور ڈبہ پیک دودھ سے متعلق مقدمات کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف سیکریٹری سندھ رضوان میمن، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ اور وکلا عدالت میں پیش ہوئے جبکہ عدالت کے طلب کرنے پر میئر کراچی وسیم اختر عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔ پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ رپورٹس میں ہمیں مت الجھائیں، یہ بتائیں کہ اس شہر میں پانی کی کمی کیوں ہے، سیدھا بتایا جائے کہ منصوبے پر عمل کب ہو گا۔

(جاری ہے)

ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا زیدی نے عدالت کو بتایا کہ بہت سے علاقے کچی آبادیاں ہیں جہاں لائنیں نہیں ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پانی کی کمی ٹینکرز سے کیوں پوری ہوتی ہے، چلیں پینے کے پانی کو چھوڑیں استعمال کا پانی ٹینکرز سے کیوں پورا ہورہا ہے۔ چیف جسٹس نے ایم ڈی واٹر بورڈ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذمہ داری ادا نہیں کر رہے تو عہدہ چھوڑ دیں، اگر اختیار نہیں یا ناکام ہیں تو کوئی بات نہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے میئر کراچی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شہر کے مسائل حل کرنا آپ کی بھی ذمہ داری ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے عدالت کو بتایا کہ شہر میں ایسے بھی علاقے ہیں جہاں تین تین ماہ پانی نہیں آتا ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میئر کراچی جھوٹ کیوں بولیں گے، جو انہوں نے کہا ہے وہ بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ دو ماہ لگیں یا تین ماہ ہر صورت میں کراچی سے ٹینکرز مافیا کا خاتمہ کریں گے، اپنے فیصلوں پر خود عمل درآمد کرائیں گے۔

چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے آلودہ پانی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا کہ ٹینکرز کے ذریعے پانی کی فراہمی کی جا رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ کراچی میں پانی تو ہے لیکن فراہمی کا نظام نہیں، ٹینکرز سے متعلقہ پانی کی فراہمی بند ہونی چاہئے اور اگر ٹینکرز والے ہڑتال کریں تو ہمیں بتایا جائے، ہمیں ان سے نمٹنا آتا ہے۔ دودھ سے متعلق سماعت کا آغاز ہوا تو ناظر نے اپنی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اس حوالے سے متعدد چھاپے مارے گئے اور ریکارڈ بھی چیک کیا گیا جبکہ بھینسوں کو لگائے جانے والے ٹیکوں کے 39 پیکٹس بھی ضبط کئے گئے۔

جس پر عدالت نے حکم دیا کہ اضافی دودھ کے لئے بھینسوں کو لگائے جانے والے انجیکشن فوری ضبط کئے جائیں، ساتھ ہی ایف آئی اے اور ڈرگ انسپکٹر کو ڈسٹری بیوٹرز اور ریٹیلرز کے اسٹاک کے جائزے کی بھی ہدایت کی گئی۔ سماعت کے دوران دودھ کی مختلف کمپنیوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ دودھ اور ٹی وائٹنر الگ الگ ہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹی وائٹنر ہر گز دودھ نہیں، آپ کو لکھ کر دینا ہوگا کہ ٹی وائٹنر دودھ نہیں۔

عدالت نے ہر کمپنی سے 50 ہزار روپے لے کر اس کے دودھ کا معائنہ کرانے کا حکم دیا۔ کثیر المنزلہ عمارتوں کے مقدمہ کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 6 منزلہ سے زیادہ تعمیر کی جانے والی عمارت کی بکنگ کی اجازت نہیں ہو گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بلڈر کو جیل بھیجیں گے تو سب کو سبق مل جائے گا۔

متعلقہ عنوان :