آج کل کے فیصلوں میں من مرضی زیادہ قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے،

ضابطہ اخلاق میں اگر ترامیم کرنا پڑیں تو کریں گے،انصاف بک نہیں سکتا، ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، عدالتوں میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو ہونی چاہئیں، قانون کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو اس کے بعد میرے ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میں لیتا ہوں ، باقی اداروں نے قوانین پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائی ہے،ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے ،وکلاء ہڑتالوں کی روایت ختم کریں، ہم نے گلستان کو بچانے اور حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے، قوانین بنانا اور ر اصلاحات کرناپارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے ، انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار ہم نہیںاور عوامل بھی ہیں، قانون میں سقم کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں دیر ہوتی ہے ، آئین کے آرٹیکل 212میں تبدیلی کی ضرورت ہے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کراچی میں جوڈیشل کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب

ہفتہ 13 جنوری 2018 22:39

آج کل کے فیصلوں میں من مرضی زیادہ قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے،
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 جنوری2018ء) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ آج کل جو فیصلے آرہے ہیں ان میں من مرضی زیادہ جبکہ قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے،کوڈ آف کنڈیکٹ میں اگر ترامیم کرنا پڑیں تو کریں گے،عدالتوں میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو ہونی چاہئیں، قانون کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو اس کے بعد میرے ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میں لیتا ہوں،ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے زیر التواء کیسزنمٹا کر دکھائے ، باقی اداروں نے قوانین پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائی ہے،وکلاء ہڑتالوں کی روایت ختم کریں، ہم نے گلستان کو بچانے اور حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے، قوانین بنانا اور اصلاحات کرنے کی ذمہ داری پارلیمنٹ کی ہے، انصاف بک نہیں سکتا، ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار ہم نہیںاور عوامل بھی ہیں، قانون میں سقم کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں دیر ہوتی ہے، میں آپ لوگوں کو ہاتھ باندھ کے عرض کرتا ہوں کہ ری ہیئرنگ میں کوئی کیس نہ ڈالنا، ، کیس میں فیصلے کیلئے 90روز بہت ہوتے ہیں، آئین کے آرٹیکل 212میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

وہ ہفتہ کو کراچی میں جوڈیشل کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کو انصاف وقت پر میسر نہیں آیا، انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمہ داری ہے، ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا، ہمیں وہ انصاف مہیا کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہوہماری من مرضی پر نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا جوڈیشل فورم تنقید کی زد میں ہے، جس کی ایک وجہ تاخیر ہے، انصاف کا حصول ہر شہری کا حق ہے، اختیارات شاید سپریم کورٹ کے جج کے پاس زیادہ ہوں مگر ذمہ داری سب کی یکساں ہے، ہماری ذمہ داری ہے کہ قانون کو سیکھیں اور لاگو کریں، آئین کے آرٹیکل4کے تحت انصاف ہر شہری کا بنیادی حق ہے، تمام شہری قانون کی پاسداری کے پابند ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 212میں تبدیلی کی ضرورت ہے، لوگوں کو شکایت ہے کہ جلد انصاف نہیں ملتا، انصاف کی فراہمی میں تاخیر ایک اہم مسئلہ ہے، بروقت انصاف کی فراہمی عدلیہ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آج کل جو فیصلے آرہے ہیں ان میں من مرضی زیادہ جبکہ قانونی پہلو کم نظر آرہا ہے،ہائی کورٹ میں ایک لاکھ 47ہزار633کیسز پینڈنگ ہیں، ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 11لاکھ87ہزار76کیسز پینڈنگ ہیں، سندھ ہائی کورٹ میں 93ہزار404کیسز اور سندھ کی ڈسٹرکٹ جوڈیشری میں 89ہزار820کیسز زیر التواء ہیں، ان کیسز کو نمٹانے کیلئے ہمارے پاس ججز کی تعداد کتنی ہی ایک سول جج کے حصے میں ایک دن میں ڈیڑھ سو کیسز بنتے ہیں،6گھنٹے کے ڈیوٹی ٹائم میں ایک کیس 2منٹ4سیکنڈ میں نمٹائیں تو تمام کیسز نمٹ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ دیکھنا چاہیے کہ جوڈیشری پر اتنا کام کا بوجھ ڈال دینا بھی مناسب ہے یا نہیں، کچھ قوانین 1860میں بنے، کچھ 1872میں بنے، پراپرٹی ایکٹ 1882میں بنا تھا، اتنے پرانے قوانین سے آج 2018میں انصاف طلب کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے، عدالتوں میں وہ سہولتیں دستیاب نہیں جو ہونی چاہئیں، سہولتوں کی کمی کی وجہ سے جج پورا ان پٹ نہیں دے پاتے، یہ سہولتیں ہم نے نہیں دینی،آپ جانتے ہیں کہ کس نے دینی ہیں، قانون کو اپ ڈیٹ کر دیا جائے تو اس کے بعد میرے ججز کوتاہی کریں تو ذمہ داری میں لیتا ہوں،پارلیمنٹ ایک سپریم ادارہ ہے اور قوانین بنانا اسی کی ذمہ داری ہے اور ریفارمز کرنے کی ذمہ داری بھی پارلیمنٹ کی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف بک نہیں سکتا، ججز کی دیانتداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، انصاف میں تاخیر کے ذمہ دار ہم نہیں اور عوامل بھی ہیں، قانون میں سقم کی وجہ سے انصاف کی فراہمی میں دیر ہوتی ہے، میں آپ لوگوں کو ہاتھ باندھ کے عرض کرتا ہوں کہ ری ہیئرنگ میں کوئی کیس نہ ڈالنا، ججز پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، کیس میں فیصلے کیلئے 90روز بہت ہوتے ہیں، کوڈ آف کنڈیکٹ میں اگر ترامیم کرنا پڑیں تو کریں گے، کیسز میں لوگوں کو ایک ،ایک سال کی تاخیر میں مت ڈالیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے پینڈنگ کیس نمٹا کر دکھائے ہیں، لوگوں کو آج بھی ججز پر اعتماد ہے، دور دور سے لوگ انصاف کی امید لے کر آتے ہیں، باقی اداروں نے قوانین پر عمل نہ کرنے کی قسم کھائی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ وکلاء ہڑتالوں کی روایت ختم کریں، ہم نے گلستان کو بچانے اور حفاظت کرنے کی قسم کھائی ہے۔

متعلقہ عنوان :