انصاف میں تاخیربڑامسئلہ ہے،مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں ، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار

بد اعتمادی کی فضا ختم ہونی چاہییے،قانون بنانا اور ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے ،ہم قانون کی تشریح کرسکتے ہیں ۔بیشمارقوانین ہیں جومتضادہیں، اس لئے قوانین میں ترمیم کے لیے ارکان پارلیمنٹ سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اگرکسی پارلیمنٹیرین سے مل لیں تواس پرچہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہئیں،تیسری سندھ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 13 جنوری 2018 22:12

انصاف میں تاخیربڑامسئلہ ہے،مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 جنوری2018ء) چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا ہے کہ انصاف میں تاخیربڑامسئلہ ہے،مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں ،بد اعتمادی کی فضا ختم ہونی چاہییے،قانون بنانا اور ترمیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے ،ہم قانون کی تشریح کرسکتے ہیں ۔بیشمارقوانین ہیں جومتضادہیں، اس لئے قوانین میں ترمیم کے لیے ارکان پارلیمنٹ سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اگرکسی پارلیمنٹیرین سے مل لیں تواس پرچہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہئیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثارنے کراچی میں تیسری سندھ جوڈیشل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بار کوچاہیے ہڑتالوں کاکلچرختم کرے،وکلاسینیرز اورججزکااحترام کریں،ہمیں اپنے گلشن کی خود حفاظت کرنی ہے،قوانین میں ترمیم کے لیے ارکان پارلیمنٹ سے بھی بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے،اگرکسی پارلیمنٹیرین سے مل لیں تواس پرچہ مگوئیاں نہیں ہونی چاہیے،بد اعتمادی کی فضا ختم ہونی چاہییے، چیف جسٹس نے کہا کہ لوگوں کی شکایت ہے کہ ان کو انصاف وقت پر میسر نہیں آتا، انصاف وقت پر اور قانون کے مطابق کرنا ہماری ذمے داری ہے ، انصاف کاحصول ہرشہری کاحق ہے، ایک سول جج اور سپریم کورٹ کے جج میں کوئی فرق نہیں ہوتا،ختیارات شاید سپریم کورٹ کے جج کے پاس زیادہ ہوں ذمے داری سب کی یکساں ہے،انہوں نے کہا کہ وقت پر اور قانون کے مطابق انصاف کرناہماری ذمے داری ہے،انصاف وقت پرنہ کرنے کی کئی وجوہات ہیں، ہم اپنی ذمے داری اداکرنانہیں چھوڑسکتے، ہماری ذمے داری ہے کہ قانون کو سیکھیں اور لاگو کریں ،چیف جسٹس نے کہا کہ بدقسمتی سے جوڈیشل فورم تنقیدکی زدمیں ہے،جس کی ایک وجہ تاخیرہے،وہ انصاف مہیا کرنا ہے جو قانون کے مطابق ہو، من مرضی پر نہیں ، بدقسمتی سے اس وقت جواحکام آرہے ہیں وہ قانون کے بجائے مرضی پرمحیط ہیں،انہوں نے کہاکہ ہم سے بہت سے قوانین سے متعلق ریفارمز کا کہا جاتا ہے ، مقدمات میں تاخیر کی ذمے دار عدلیہ نہیں ، ایک جج کے پاس روزانہ غالباً 150مقدمات آتے ہیں، جج کے پاس ایک کیس کے لیے صرف چندمنٹ ہوتے ہیں،اتنابوجھ ڈال کرتاخیرکی ذمہ داری صرف جج پرنہیں ڈالی جاسکتی،چیف جسٹس نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیاانصاف کا ادارہ حق نہیں رکھتاکہ اسکوچیزیں فراہم کی جائیں جس سے سہولت پیداہو،ایک جج کے کام کرنے کے اووقات صرف6گھنٹے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ قانون مجھے نہیں بنانا کسی اور کو بنانا ہے مجھے قانون کی تشریح کرنی ہے ، قانون بناناپارلیمنٹ کاکام ہے،قانون میں اصلاحات کس نے لانی ہیں بیشمارقوانین ہیں جومتضادہیں، انصاف میں تاخیربڑامسئلہ ہے،مگراسکی مکمل ذمے داری عدالتوں پرنہیں، زیرالتواکیسزکی تعداد زیادہ ہے،ہرکیس کا2 منٹ میں فیصلہ ہو تو بھی تعداد پوری نہ ہو، انہوںنے کہاکہ کئی قوانین ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان میں ترمیم لائیں،قوانین میں ترامیم ہم کونہیں کرنیں،ہم قانون کے پابند ہیں،ہم سالوں پرانے قوانین کے مطابق فیصلے کرتے ہیں،آج بھی 74 تجاویزایسی ہیں جو ہم نے دیں مگر اس پر کچھ نہیں ہوا،آپ قوانین میں ترمیم کردیں،اگرججزکوتاہی کریں تومیں ذمے دارہوں،انہوں نے کہا کہ ہرایک کو انصاف کے لیئے اپنا حصہ ڈالنا ہوگا، لاکھوں کی تعداد میں کیسز اس وقت زیرسماعت ہیں،عدالتوں پردباؤہے،پھربھی میں تاخیرکی ذمے داری لیتاہوں،میرے جج کی دیانت داری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ، کسی جج کونہیں بلاسکتا،اس لیے آپ کی ذمے داری زیادہ ہے،ہمیں اپنی ذمے داری اٹھانی ہوگی اور یہ ہی حتمی ہے ،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ کیابات ہے کہ3مہینے فیصلہ محفوظ کرنے کے بعددوبارہ سماعت پرڈال دیں،ہائی کورٹ کے جج 90روزمیں کیس کافیصلہ سنائیں،ہمیں اپنے گھر کو منظم کرنا ہے اور متحد ہوکر منظم کرنا ہے ،ایسانہ ہوکسی ایک کی کوتاہی عدلیہ کیلیے بدقسمتی کاداغ بن جائے،مہینوں کے بعدکیس کی دوبارہ سماعت کے حق میں نہیں ہوں،میں15دن کاوقت دے رہاہوں،چیف جسٹس نے کہاکہ جن ججزکے پاس3ماہ سے مقدمات زیرالتواہیں وہ ایک ماہ میں فیصلہ کریں،بڑے بھائی کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں کوئی کیس ری ہیئرنگ میں نہ ڈالیں۔

#

متعلقہ عنوان :