رئوف صدیقی نے اے ٹی سی کے فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کردیا

انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کے انتظامی جج کے فیصلے کو نظر اندازکیا ہے، سابق صوبائی وزیرصنعت و تجارت

ہفتہ 13 جنوری 2018 18:37

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 جنوری2018ء) سابق صوبائی وزیرِ داخلہ و صنعت و تجارت رئوف صدیقی نے انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر 7 کے فیصلے کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے رئوف صدیقی نے کہا کہ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نمبر 7 کا یہ فیصلہ سندھ ہائیکورٹ کے انتظامی جج کے فیصلے کو نظر انداز کر کے کیا گیا ہے۔

سانحہ بلدیہ کیس میں میں خود عدالت میں پیش ہوا اور عدالت کے حکم پر انویسٹی گیشن میں شامل ہوا ، تحریری بیان بھی دیا جبکہ کسی جے آئی ٹی اورکسی ایف آئی آر میں میرا دور دور تک کوئی نام و نشان بھی نہیں تھا۔میرے خلاف ہر زاویے سے تفصیلی تفتیش کرنے کے بعد عدم ثبوت کی بنیاد پر میرا نام اس مقدمے سے خارج کیا گیا تھا اور پولیس کا عبوری چالان جس میں پولیس نے کہا کہ اُنہوں انویسٹی گیشن کر لی ہے اور رئوف صدیقی کے خلاف کوئی ثبوت و شواہد نہیں ہیں، یہ عبوری چالان خود انسدادِدہشتگردی کی عدالت اور اس کے بعد سندھ ہائیکورٹ کے انتظامی جج نے قبول کیا تھا۔

(جاری ہے)

اس کے باوجود سانحہ بلدیہ کیس میں میرا نام شامل رکھنے کا یہ فیصلہ لیگل فریم ورک سے باہر نکل کر کیا گیا ہے، قانونی لحاظ سے یہ سراسرزیادتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے اعلیٰ عدلیہ سے انصاف ملتا رہا ہے، اس لئے میں اب ہر ہر فیصلے کوسندھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرتا رہوںگا۔ ایک صحافی کے سوال پر رئوف صدیقی نے جواب دیا کہ بلدیہ فیکٹری کے دکھ بھرے سانحے پر میں نے تاریخی استعفیٰ دیاتھا جو پاکستان کی تاریخ میںاپنی نوعیت کا پہلا اور برِ صغیر میں دوسرا استعفیٰ تھا۔

چونکہ یہ سانحہ انڈسٹریل زون کے اندر پیش آیا تھااور جب میں وہاں پہنچاتو چھ سات کے قریب شہادتیں ہو چکی تھیں، پورا میڈیا اس کی لائیو کوریج کر رہا تھا ، جائے حادثہ کی تمام فوٹیج اور عینی شاہد موجود ہیں، میں نے سانحے میں 260 لوگوں کو جھلستے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا، شہدا ء اور ساڑھے چھ سو کے قریب زخمیوں کے غریب لواحقین کا کوئی پُرسانِ حال نہیں تھا جبکہ یہ ذمہ داری براہِ راست وزارتِ محنت اور وزارتِ داخلہ کی تھی ، وزارتِ صنعت تو صرف صنعتکاروں کو سہولیات پہنچاتی ہے۔

رئوف صدیقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار اور اُن کے معزز جج صاحبان نے جس طرح VVIP پروٹوکول، پانی، صحت اور پرائیویٹ میڈیکل کالج پر ایکشن لیا ہے، اس پر میں اُنہیں دل کی تمام ترگہرائیوں سے خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔پاکستان کے مجبور و محکوم عوام چیف جسٹس آف پاکستان کو بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھتے ،اب بہتری کی تمام امیدیں چیف جسٹس آف پاکستان سے وابستہ ہیں۔

حکومت کو چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے عوام کے سکھ و چین کیلئے کئے جانے والے اقدامات سے گھبرانے کے بجائے اُن کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ اُنہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ سے پُرزور اپیل کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوئر کورٹس پر بھی توجہ دیں ،پورے پاکستان میں چالیس سے پینتالیس فیصدمقدمات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔عدالتوں پر بے انتہا دبائو ہے جس کاتدارک ہونا ضروری ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ میں نے سندھ اسمبلی کے اجلاس اور مختلف اوقات میں یہ بات کہی ہے کہ اس کا حل یہ ہے کہ جوڈیشل انفرا اسٹرکچر تو موجود ہے ہی، سپریم کورٹ، ہائیکورٹ اور سیشن کورٹس میں ججزہائر کر کے دو شفٹوں میں مقدمات چلائے جائیں تاکہ زیرِ التواء پچھلے لاکھوں مقدمات کی نمٹائے جا سکیں۔

متعلقہ عنوان :