اکلاس ایمپلائزپروگریسویونین تادم مرگ دن رات دھرنا ‘ گولڈن ہینڈ شیک نوٹیفکیشن بیوروکریسی آڑے آ گیا

15سو ملازمین خاندانوں کے ہمراہ 22 جنوری سے کمپلیکس کے سامنے احتجاج شروع کرینگے

ہفتہ 13 جنوری 2018 16:01

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 جنوری2018ء) اکلاس ایمپلائزپروگریسویونین تادم مرگ دن رات دھرنا ، گولڈن ہینڈ شیک نوٹی فکیشن بیوروکریسی آڑے آگئی ، 15سو ملازمین خاندانوں کے ہمراہ 22 جنوری سے کمپلیکس کے سامنے احتجاج شروع کرینگے ، جن کی تعداد بال بچوں سمیت 15 ہزار سے زائد ہوگی ، 6مئی2015 کے حکومتی نوٹیفکیشن پرعملدرآمد کیلئے میدان سجے گا۔

اکلاس ایمپلائز پروگریسو سی بی اے یونین کے 1500 ملازمین زبردست معاشی مشکلات کاشکار ہین۔ 120 ملازمین نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔جبکہ 95 ملازمین ہارٹ اٹیک جبکہ 25 ملازمین سیریس ہارٹ جبکہ 10کے لگ بھگ ملازمین کوڈاکٹرز نے فوری طور پر ہارٹ آپریشن تجویز کردیاہے ۔ان کی زندگیاں دائو پر لگی ہوئی ہیں۔ اکلاس 10 کے لگ بھگ ملازمین اکلاس بحراں کے دوران ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر جاں بحق ہوچکے ہیں۔

(جاری ہے)

اکلاس ملازمین کی معاشی بدحالی سے اکلاس ملازمین کی اکثریت موت زندگی کی کشمکش میں مبتلاء ہیں۔ ان خیالا ت کااظہار اکلاس ایمپلائز پروگریسو یونین کے مرکزی صدر راجہ شبیر احمد خان نے ایک خصوصی فورم کے دوران اپنے عہدیدران کے ہمراہ خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر عہدیداران وکارکنان اکلاس ایمپلائز پروگریسو یونین سی بی اے یونین رجسٹرڈ کے سینئر نائب صدر عاصم رشیدخان، نگران اعلیٰ طاہر سلیم کیانی ، جنرل سیکرٹری چودھری میر محمد، سیکرٹری مالیات سردار اسرار احمد، ڈپٹی چیف آرگنائزر راجہ نادر خان نائب صدر جہلم ویلی سید سرور بخاری ، نائب صدر اسلام آباد روات محمد پرویز خان، نائب صدر شاردہ ڈویژن عبداللطیف لون ، نائب صدر میرپور فیکٹری محمد رفیق چوہان،ایڈیشنل سیکرٹری جنرل محمد اکرم عباسی ، سیکرٹری نشرواشاعت محمد نعیم اعوان،رابطہ سیکرٹری سجاد اعوان، موجود تھے مرکزی صدر راجہ شبیراحمدخان نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ ادارہ اکلاس 1968؁ میں قائم کیاگیا، جس میں اکلاس کو یہ مینڈیٹ ملا کہ جنگلات سے ایسے درخت جو اپنی طبی عمر پوری کرچکے ہوں نکاسی کرنا ضروری ہے ۔

ابتداء میں یہ ادارہ 20 سے 25 لاکھ مکعب فٹ تک لکڑی کی نکاسی کرتارہا اور اسی تناسب سے ادارہ میں ملازمین بھی بھرتی کیے گئے ، لکڑی کی نکاسی ، فروختگی سے ملازمین کوتنخواہ پنشن رائیلٹی ٹیکسز کی ادائیگی کی جاتی رہی ۔ اور اربوں کے اثاثہ جات بھی بنائے گے ، 1997میں حکومت آزادکشمیر نے سبز درختان کی کٹائی پر پابندی عائد کرکے اکلاس کو دیاگیا مینڈیٹ واپس لے لیا۔

اور متبادل ذرائع آمدن کے طور پر 2003 میں ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کار ی کرتے ہوئے اسلام آباد میں تقریباً68 کروڑ روپے کی خطیر رقم سے CDAسے نیلامی میں پلاٹ خرید کیے ان کامقصد یہ تھا کہ پلاٹس پر تعمیر کرکے ریٹنل انکم سے ملازمین کی تنخواہ پنشن اور دیگر اخراجات پورے کیے جائیں گے ۔ حکومت نے پلاٹ کی تعمیر کیلئے فنی مشاورتی کمیٹی تشکیل دی جس کے سینکڑوں اجلاس ہوئے جن پر کرڑوں روپے اخراجات آئے ۔

G/10 میں ایک پلازہ تعمیر کیاگیا جس کا ماہانہ کرایہ تقریباً15 لاکھ روپے آتا ہے ۔ اور f/10مرکزکے پلاٹ پر تعمیر نہ ہوسکی ۔ اسی دوران تعمیر نہ ہونے کی وجہ سے سی ڈی اے نے اپنے قانون کے تحت پلاٹ منسوخ کردیا۔ جس کی بحالی کیلئے یونین نے بھی جدوجہد کی اور عدالت العالیہ سے فیصلہ کروایا بڑی مشکل سے بھاری جرمانہ اداکرکے پلاٹ دوبارہ بحال کروایا۔

جس کاہرسال لاکھوں روپے جرمانہ اداکرنا پڑھ رہاہے ۔ ادھر لکڑی 20 سے 25 لاکھ سے کم ہوکر 2 لاکھ مکعب فٹ سے بھی کم پر آگئی ہے ۔ وہ بھی خشک گری پڑی بوسیدہ لکڑی جوکوالٹی کے اعتبار سے بہت ہی کم کوالٹی کی ہے ۔ ادھر تنخوائوں میں ہر سال اضافہ ہونے کی بناء پر ج 3 کروڑ 75 لاکھ روپے ماہانہ پرپہنچ گئے سی بی اے یونین نے جب یہ ساری صورتحال دیکھی تو دسمبر 2013 میں یونین کی حلف بردری کی تقریب میں یونین نے اپنے سپاس نامہ میں مطالبہ رکھا کہ حکومت نے ادارہ کو دیاگیا مینڈیٹ واپس لے لیاہے ۔

اور ملازمین اکلاس کامستقبل سوالیہ نشان بنتا جارہاہے ۔ حکومت سارے اثاثہ جات رکھ کر ملازمین کو نارمل میزانیہ پرلے تاکہ ملازمین اورانکے بچوں کامستقبل محفوظ ہوسکے ۔ پیش کیے گئے سپاس نامہ پر حکومت وقت نے سال 2014 میں ایک اعلیٰ سطحی حکومتی کمیٹی تشکیل دی ۔ کمیٹی سربراہ وزیر خزانہ ممبران میں وزیر تعلیم ، وزیر ا کلاس ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ، سیکرٹری مالیات ، سیکرٹری جنگلات اکلاس،اور منیجنگ ڈائریکٹر اکلاس شامل تھے ۔

کمیٹی کو مینڈیٹ دیاگا کہ ادارہ کو فعال بنانے کیلئے تمام ضروری اقدامات کیئے جائیں۔ حکومتی کمیٹی نے عرصہ 5 ماہ گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہ کی تو سی بی اے نے ہڑتال کی کال دی۔ 29 روز ہڑتال کے بعد حکومتی کمیٹی کے تمام ممبران وزیر خزانہ کی سربراہی میں ملازمین کے ہڑتالی کیمپ میں تشریف لائے توانہوں نے وہاں موجودسینکڑوں ملازمین سے اپنے خطاب میں ہڑتال ختم کرنے کو کہاتو صدر یونین راجہ محمد شبیر خان نے ہڑتال ختم کرنے سے معذر ت کرتے ہوئے کہاکہ ہمارامستقبل خطرے مین ہے ۔

ہم ہڑتال ختم نہیں کرسکتے ۔ اس کے بعد اسی اعلیٰ سطحی حکومتی کمیٹی کااجلاس اسی روز اکلاس آفس بلڈنگ کے کمیٹی روم میں اجلاس ہوا۔ اجلاس میں صدر سی بی اے یونین راجہ محمد شبیر خان کو بلاکر سماعت کیاگیا۔ صدر یونین نے موقف اختیار کیا کہ ہمارے بچوں کامستقبل خطرے میں ہے ۔ یہ ادارہ اب اس طرح کسی بھی صورت نہیں چل سکتا۔ چونکہ اب آمدن اور اخراجات کاتوازن بری طرح متاثر ہوچکاہے ۔

البتہ ادارہ کے اربوں کے اثاثہ جات ہیں۔جوملازمین نے اپنے خون پسینے کی کمائی سے بنائے ہیں حکومت یہ اثاثہ خود رکھ لے اور ہمیں نارمل میزانیہ پر لے جائے ۔ تاکہ ہمارے نونہالان کامستقبل محفوظ ہوسکے ۔ اس دوران چیئرمین کمیٹی ودیگر وزرائے اکرام سیکرٹری صاحبان نے یک زبان یہ کہاکہ اتنے زیادہ ملازمین کونارمل میزانیہ پر لینا ممکن نہیں ۔ اس کے علاوہ کوئی اور آپشن بتائیں توصد ریونین نے کہاکہ سبزدرختان کی کٹائی پرپابندی کی وجہ سے اور خشک اور گرے پڑے درختان جوکوالٹی کے اعتبار سے بہت کم کوالٹی کے ہیں جن کی مقدار تقریباً10 فیصد رہ گئی ہے ۔

جو اکلاس کودی جارہی ہے ۔ اور ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ تو پھر حکومت کم ازکم 500 ملازمین کوگولڈن ہینڈ شیک دے ادارہ مین رائیٹ سائزنگ کرے تاکہ یہ ادارہ بھی چلتارہے اور ملازمین کامستقبل بھی محفوظ ہوسکے ۔ توکمیٹی کے اراکین نے کہاکہ اس پرغور کرتے ہیں اس کے بعد حکومتی کمیٹی کے درجنوں اجلاس ہوئے اس دوران تمام پہلوں پر غور کیاگیا۔

توحکومتی اعلیٰ سطحی کمیٹی نے یہ فیصلہ کیا جس کا باقاعدہ نوٹی فکیشن 6 مئی 2015 ،ْ کو جاری ہوا۔ جس کے تحت 504 ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے الوداع کرکے 159 ملازمین اور 500 ریٹائرڈ ملازمین کو رکھاجائے اور ایف 10 مرکز اسلام آباد میں اکلاس کے ملکیتی پلاٹ کوصاف شفاف طریقے سے فروخت کرکے 504 ملازمین کو گولڈنگ ہینڈ شیک اور باقی بچنے والی رقم سے ادارہ کی مالی ضروریات کوپوراکرتے ہوئے ادارہ کو چلایاجائے ۔

یہ نوٹی فکیشن 6 مئی 2015 کوجاری کیاگیاپلاٹ آکشن کمیٹی بنائی گئی ۔ جس کے چیئرمین نعیم شیراز اور دیگرممبران نوٹیفکیشن اور فیصلہ بوڈ کے خلاف بجائے پلاٹ فروکت کرنے کے PPJV کااشتہار دے دیا۔ پھر وہان پر 6 ماہ تک اس کی میشگنز ہوتی ہورہیں۔ جس پرلاکھوں روپے کے اخراجات ہوئے 7 ماہ کے بعد پتہ چلا کہ پلاٹ پر پرائیویٹ پبلک پاٹنرشپ نہیں ہوسکی ۔ اور پھر معاملہ وہان پہنچ گیا۔

کہ پلاٹ فروکت ہوگا۔ نئی حکومت بننے کے بعد وزیراعظم آزادکشمیر سے یونین کی ملاقات ہوئی تووزیراعظم نے یونین کو یقین دہانی کرائی کہ آپ کامسئلہ بہت جلد حل کرینگے ۔ چونکہ آپ کامسئلہ جائز ہے اس کو فوری طور پر حل کرنا ہے ۔ وزیراعظم نے چیف سیکرٹری وقت کو یہ زمہ داری سونپتے ہوئے انہیں ہدایت کی کہ اس مسئلہ کو فوری حل کرئو توچیف سیکرٹری نے کہاکہ یہ فوری حل کررہے ہیں جب یہ سارے معاملات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود رہے توتنخواہوں پنشن کی عدم ادائیگی ملازمین کے بچوں کو سکولوں سے نکالاگیا تو سی بی اے یونین نے بھرپور ہڑتال شروع کی اسی دوران یونین نے اپنے متاثرہ بچوں سمیت پریس کلب کی جانب لانگ مارچ بھی کیا۔

جس میں بڑی تعداد میں ملازمین شریک تھے ۔ تو 26 دسمبر 2016 کو وزیراعظم آزادکشمیر نے یونین کے مرکزی صدر راجہ محمد شبیرخان اور دیگر عہدیداران کووزیراعظم ہائوس میں طلب کیااور یقین دلایا کہ آپ ہڑتال ختم کریں۔چند دنوں میں آپ کاکام ہوجاے گا۔ مگرذرہ بھربھی پیش رفت نہ ہوئی اور ساتھ ہی 3 ماہ سے تنخواہ، پیشن کی عدم ادائیگی کی وجہ سے دو بارہ سی بی اے یونین نے ہڑتال کی کال دی اور 28 اگست 2017کواکلاس آفس کمپلیکس کے سامنے ہزارون کی تعداد میں اکلاس ملازمین پورے آزادکشمیر روات اسلام آباد، سے شریک تھے اور ساتھ انکے متاثرہ بچے بھی شامل تھے 28 اگست کوان کے بچوں نے بھی ہمراہ ریلی نکالنی تھی ۔

تواسی اثنا میں حکومتی اعلیٰ سطحی کمیٹی موجودہ وزیرتعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی کی سربراہی میں اکلاس آفس میں تشریف لائے کمیٹی ممبران میں سید ظہور الحسن گیلانی سیکرٹری جنگلات/ اکلاس، سردار گلفراز خان ڈی آئی جی پولیس ، چودھری امتیاز احمد منیجنگ ڈائریکٹر اکلاس ، چودھری طیب حسین کمشنر مظفرآباد ڈویژن اور اکلاس آفیسران شامل تھے ۔

کمیٹی نے یونین عہدیداران سے تٖفصیلی میٹنگ کی اور اس دوران وزیر تعلیم بیرسٹر افتخار گیلانی نے خود کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ بہر صورت 4 ماہ یعنی 28 دسمبر 2017سے قبل گولڈن ہینڈ شیک کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کردیاجائے گا۔ جس کاانہوں نے ملازمین کے ہڑتالی پنڈال میں ہزاروں ملازمین اور ان کے بچوں اور میڈیا کے سامنے اپنے خطاب میں بھی کیا۔

انہوں نے کہاکہ آپ ہڑتال موخر کریں آپ کا یہ مسئلہ بہر صورت 4 ماہ کے اندر حل کردینگے ۔ اس وقت تک تنخواہ ، پنشن کی بروقت ادائیگی ہوتی رہے گی ۔ جسکی تمام کمیٹی ممبران نے تائید کی تو یونین عہدیداران نے اپنی مشاورت کے بعدیہ فیصلہ کیا کہ حکومتی اعلیٰ سطحی کمیٹی کے معزز اراکین تحریری معاہدہ اور اتنے ہزاروں ملازمین اور میڈیا کے سامنے اتنابڑاوعدہ کرتے ہین توہمیں آخرباران کی یہ بات بھی مان لینی چائیے اور ساتھ ہی یونین کے عہدیداران نے ہزاروں ملازمین کی موجودگی میں صڈر یونین راجہ محمد شبیر خان نے احتجاج موخر کرنے کااعلان کیا۔

تو ملازمین کھڑے ہوئے اور رونے لگے کہ اس سے قبل کئی سال گزر گئے ہیں ہمارے ساتھ وعدے کیے گئے اور طرح طرح کی یقین دہانیاں کروائی جاتی رہی ں مگر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اب ہم کسی صورت میں اپنے مستقبل پر عملدرآمد کے علاوہ یہاں سے نہیں اٹھائیں گے متاثرہ بچے بھی ہمارے ساتھ ہیں ہم ادھر ہی مریں گے اس پر صدر یونین سی بی اے راجہ شبیر خان نے لوگوں سے وعدہ کیا کہ 4 ماہ کاوقت آخری دفعہ دیتے ہیں۔

اگر 4 یعنی 28 دسمبر 2017 تک نوٹفکیشن پرعمل درآمد نہ ہوتوآخری بر ہڑتال کے لیے نکلیں گے توعملدرآمد کے بغیر کسی کے وعدے یایقین دھانی پر واپس نہیں آئیں گے ۔ اب فیصلہ کرکے نکل رہے ہیں۔ کہ اگر مرنابھی پڑاتودریغ نہیں کرینگے ۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ملازمین کیساتھ دھوکہ کیاگیا۔ اور حکومت اپنا وعدہ نبھانے میں مکمل ناکام رہی ۔ اب تمام ملازمین اکلاس نے آخری احتجاج ہڑتال کرنے اور ہر قربانی دینے کیلئے سڑکوں پر نکلنے کافیصلہ کیاہے ۔

اور اب کسی سے نہ تو مذاکرات ہونگے نہ ہی کسی کے دھوکہ میں آئیں گے ۔ اب یاتوحکومت نوٹفکیشن پر عملدرآمد کرے ۔ یاپھر فوری طو رپر تمام ملازمین اکلاس کو نارمل میزانیہ پر لینے کا نوٹفکیشن جاری کرے ۔ ہم ملازمین اپنے حقوق کی خاطر اپنے اہل وعیال کے ہمراہ اپنی جانوں کے نذرانے بھی پیش کرنے پڑھے تو دریغ نہیں کرینگے ۔ مگر کسی بھی صورت اپنے مستقبل پر سمجھوتہ نہیں کرینگے ۔

متعلقہ عنوان :