قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے قصور میں 7سالہ زینب امین قتل کی شدید الفاظ میں مذمت

جمعہ 12 جنوری 2018 16:56

قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے قصور میں 7سالہ زینب امین  قتل کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 جنوری2018ء) قومی اسمبلی میں حکومت اور اپوزیشن نے قصور میں 7سالہ زینب امین کے زیادتی کے بعد قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ پارلیمان کی قراردادوں کو کبھی بھی حکومتوں نے چاہے صوبائی ہوں یا وفاقی کبھی اہمیت نہیں دی، ساری قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں،2016-17میں 720واقعات ہوئے جن کے مجرموں کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، قصور کا واقعہ افسوسناک ہے، جس سے سارا ملک، ادارے، عام آدمی سب متاثر ہوئے ہیں۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ خواتین کو جنسی حراساں کرنے کا مضمون آج تک کسی بھی صوبے کے نصاب میں شامل نہیں ہے، ہم اس میں دین اور مذہب کو لے کر آتے ہیں، ہمارے نصاب میں مغربیت ہے مگر یہ قوانین موجود نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ قصور میں ہونے والے واقعہ پر جن لوگوں پر شبہ ہے وہ گرفتار ہیں ڈی این اے لیا جارہا ہے جے آئی ٹی دنوں میں نہیں گھنٹوں تک ملزم تک پہنچے گی۔

واقعے کے ردعمل میں واقعات افسوسناک ہیں ہسپتالوں سمیت املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔سیاسی جماعتوں کے لوگ ایسے واقعات کے بعد اپنے سیاسی مقاصد کے لئے پوائنٹ سکورنگ نہ کریں اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بنائیں۔ ایوان ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کمیٹی بنائی جائے۔جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ قصور میں یہ پہلا واقعہ نہیں بارہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، یہ صرف قصور میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہورہا ہے،ملک میں سزا اور جزاء کا نظام نہیںپنجاب کی پولیس کی اتنی بڑی تعداد ہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ حکومت کی نااہلی ہے، جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہ، ان واقعات سے عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے، وزیر اعلیٰ اندھیرے میں ان کے گھر جاتے ہیں، دن کے اجالے میں کیوں نہیں جاتے۔

رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے مگر احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی ذمہ دار حکومت ہے، ہمیں ماں باپ اور بچوں کو شعور دینا ہو گا۔نعیمہ کشور خان نے کہا کہ ایسے واقعات ہمارے منہ پر طمانچہ ہیں، لاہور میں جاوید اقبال نامی 108بچوں کے واقعے پر ایکشن لیا جائے تو یہ واقعات نہ ہوتے، ڈی آئی خان میں لڑکی کو برہنہ کر کے اسے زندہ درگور کر دیا گیا، جب ہم حدودو قوانین کی بات کرتے ہیں تو ہم پر تنقید کی جاتی ہے، ہمیں اسلامی سزائوں کو نافذ کرنا ہو گا۔

جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں آغاز تلاوت کلام پاک اور نعت رسولؐ سے ہوا، قصور میں سات سالہ زینب کے ساتھ جو درندگی کی گئی وہ قابل مذمت ہے، زینب سمیت وزیرستان اور لائن آف کنٹرول پر شہید ہونے والوں اور جنرل خالد شمیم وائیں، ایئرمارشل اصغر خان کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا کہ قصور واقعے پر بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں طے وہا کہ اجلاس کی باقی کارروائی معطل کر کے قصور واقعے پر بحث کی جائے۔

وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب نے اجلاس کی کارروائی معطلی کی تحریک پیش کی جسے قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر منظور کرلیا۔قصور واقعے پر بحث کی تحریک وفاقی بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے پیش کی۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ فاٹا ریفارمز بل آج بھی ایجنڈے پر نہیں ہے، جس پر ہمارا واک آئوٹ اٹل ہے، جو باتیں سڑکوں پر ہوتی ہیں وہ یہاں ہونی چاہئیں، پارلیمان کی قراردادوں کو کبھی بھی حکومتوں نے چاہے صوبائی ہوں یا وفاقی کبھی اہمیت نہیں دی، ساری قراردادیں متفقہ طور پر منظور ہوئیں،2016-17میں 720واقعات ہوئے جن کے مجرموں کو گرفتار کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، قصور کا واقعہ افسوسناک ہے، جس سے سارا ملک، ادارے، عام آدمی سب متاثر ہوئے ہیں، ہر ماں، بہن متاثر ہوئی ہے، جس طریقے سے یہ درندگی سامنے آئی ہے، کتنی زینب ایسی ہیں جن کے ساتھ یہ واقعات ہوئے ہیں، پہلے واقعات پر اگر سزا ہوتی تو ایسے واقعات نہ ہوتے، قوانین موجود ہیں عملدرآمد کروایا جائے، کسی ایس پی کو ہٹا کر معاملہ حل نہیں ہوتا، کسی کا مور غائب ہو گیا تو ایس پی کو معطل کر دیا گیا، یہ تو انسانی جان ہے، ایک رپورٹ تک بھی نہیں آئی جس میں ملزموں کو سزا دی گئی ہو، اگر ہم محفوظ نہیں ہوں گے تو یہ سازی چیزیں فضول ہیں،جس شخص کو ویڈیو میں دکھایا گیا ہے بچی اس کے ساتھ جاتے ہوئے کوئی مزاحت نہیں کر رہی ہے، اس کا مطلب ہے کہ بچی اس شخص کو جانتی تھی، احتجاج پورے ملک میں ہے، ہر ماں اور باپ باہر نکلے ہیں، مگر حکومت کی طرف سے صرف تقویت ہو رہی ہے،اگر مجرموں کو کیفر کدار تک نہ پہنچایا گیا تو ملک میں انتشار پھیلے گا، ریاست کمزور ہو جائے گی، انصاف نہ ملنا ریاست کی کمزوری ہو گی، اس پر قراردادیں منظور ہوں گی تمام سیاسی جماعتیں بات کریں گی، مگر نتیجہ نہیں آئے گا، امریکہ، یورپ میں بھی واقعات ہوتے ہیں، تفتیش ہوتی ہے اور مجرموں کو پکڑا جاتا ہے، پارلیمنٹ کو بتایا جائے کہ کونسے صوبے میں جرائم کی شرح زیادہ ہے کہاں کم ہے، پنجاب کے اعداد و شمار لائے جائیں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور محسن شاہنواز رانجھا نے کہا کہ قائد حزب اختلاف کی گفتگو حقیقت پر مبنی ہے، ہمیں اپنے اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے، یہ صرف پنجاب میں نہیں ہوتے ،پاکستان کے ہر شہر میں ہوتے ہیں، ماضی میں تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں رہیں، مگر قانون سازی ہم نے کی، 2015کے قصور واقعات کے بعد سزائوں میں اضافہ ہوا،سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے اجتناب کرنا چاہیے، سزائوں پر عملدرآمد نہ ہونے کی ذمہ دار پولیس عدالتیں ہیں، لوئر عدالتیں تاریخیں ہی نہیں دیتیں، قصور واقعے پر ملزمان کو پھانسی دی جائے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور این جی اوز کچھ بھی کہیں مگر ایسے لوگوں کو سخت سے سخت سزا دی جائے، لیگل سسٹم میں سقم موجود ہیں، ایک مقدمہ دادا کرتا ہے اور بھگتا پوتا ہے، تمام سیاسی جماعتیں اور صوبائی حکومتیں ان مسائل سے دوچار ہیں، رکن قومی اسمبلی شیریں مزاری نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں کرنی چاہیے مگر احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی ذمہ دار حکومت ہے، ہمیں ماں باپ اور بچوں کو شعور دینا ہو گا،200بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی اور صوبائی وزیر قانون نے کہا کہ یہ زمین کا تنازعہ ہے، احتجاج کرنے والوں پر فائرنگ کی گئی، پی ایم ایل (ن) کی حکومت اور ترجمان کی طرف سے بار بار یہ بات آتی ہے کہ یہ ماں باپ کا قصور ہے، این جی اوز کو بلیک لسٹ کر کے ان کو تقریبات کی اجازت دی گئی ہے یہ کونسی منطق ہے، اس میں حکومتی ناکامی ہے، قرار داد کے بجائے ایکشن لیا جائے،قصور کے لوگوں اور بچی کے لواحقین کو پنجاب حکومت پر کوئی اعتماد نہیں، بہت سی قراردادیں ردی کی ٹوکری میں چلی گئیں۔

نعیمہ کشور خان نے کہا کہ امریکہ اور یورپ میں یہ واقعات ہوتے ہیں مگر ہم خود سے کہتے ہیں کہ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، ایسے واقعات ہمارے منہ پر طمانچہ ہیں، لاہور میں جاوید اقبال نامی 108بچوں کے واقعے پر ایکشن لیا جائے تو یہ واقعات نہ ہوتے، ڈی آئی خان میں لڑکی کو برہنہ کر کے اسے زندہ درگور کر دیا گیا، جب ہم حدودو قوانین کی بات کرتے ہیں تو ہم پر تنقید کی جاتی ہے، ہمیں اسلامی سزائوں کو نافذ کرنا ہو گا، ایسے واقعات اسلامی نظام سے دوری کی وجہ سے ہوتے ہیں، نکاح کو آسان کرنا ہو گا۔

کشور زہرا نے کہا کہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں بلکہ کچھ سوال ہیں جس کی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے، دو کلو میٹر کے دائرے میں واقعات ہوئے ہیں، وہاں ایسے کیمرے نصب کئے گئے ہیں جس سے نشاندہی بھی نہیں ہو سکتی بلکہ شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں، حکومت مشتعل لوگوں پر گولی چلائی جا سکتی ہے مگر ملزموں کو پکڑا نہیں گیا۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ قصور میں یہ پہلا واقعہ نہیں بارہ کیسز رجسٹرڈ ہو چکے ہیں، یہ صرف قصور میں نہیں بلکہ پورے ملک میں ہورہا ہے،ملک میں سزا اور جزاء کا نظام نہیں، چیف جسٹس نے سوموٹو لیا اور آرمی چیف نے ایکشن لیا، پنجاب کی پولیس کی اتنی بڑی تعداد ہے کوئی مانے یا نہ مانے یہ حکومت کی نااہلی ہے، جس مقتول کا قاتل نا معلوم ہو اس کا قاتل حاکم وقت ہوتا ہ، ان واقعات سے عالمی سطح پر بدنامی ہورہی ہے، وزیر اعلیٰ اندھیرے میں ان کے گھر جاتے ہیں، دن کے اجالے میں کیوں نہیں جاتے، اگر مجرموں کو ڈی چوک اور یادگار پاکستان پر کسی کو پھانسی دی جائے تو ایسے واقعات نہیں ہوں گے۔

وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہاکہ اس واقعے کو ایک ماں ہونے کی حیثیت سے مذمت کرتی ہوں، یہ ایسا واقعہ ہے جس ملک کا ہر شہری اور ایوان کے تمام ممبران شرمندہ ہیں، پاکستان میں آج ہر آنکھ اشکبار ہے، دوسرے ممالک میں واقعات ہوتے ہیں مگر مجھے اس بات سے غرض ہے کہ پاکستان میں یہ واقعہ کیوں ہوا، پورے ملک میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، خواتین کو جنسی حراساں کرنے کا مضمون آج تک کسی بھی صوبے کے نصاب میں شامل نہیں ہے، ہم اس میں دین اور مذہب کو لے کر آتے ہیں، ہمارے نصاب میں مغربیت ہے مگر یہ قوانین موجود نہیں ہیں، مساجد سے حقوق العباد کے حوالے سے بات ہونی چاہیے، علماء بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں، وہ بات کی جائے، عملی طریقہ اپنایا جائے کہ مستقبل میں ایسے واقعات نہ ہوں، والدین رپورٹ درج کرائے جاتے ہیں تو انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہمیں یہ دیکھنا ہو گا، ایسے درندوں کو ایسی سزا ملے ان کو کسی بیھ قسم کی رعایت نہیں دینی چاہیے، انفرادی ذمہ داری بھی ہمیں ادا کرنی ہو گی، تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میںخواتین کو حراساں کرن کے حوالے سے شامل کیا جانا چاہیے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا کہ واقعہ کی روک تھام کی ذمہ داری تمام سیاسی جماعتوں اور سب کی ہے واقعہ کے بعد بعض لوگوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا معاملات کو سلجھانے کی بجائے بگاڑنے کا کام کیا۔ نظام عدل میں اصلاحات ہونی چاہئیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے ٹھوس اقدامات ہونے چاہئیں تاکہ دوبارہ نہ ہو۔ چاہے کوئی پارلیمانیکمیٹی بنائی جائے اس طرح کے واقعات پورے پاکستان میں ہورہے ہیں۔

کچھ واقعات میڈیا کی نظر میں نہیں آتے یہ واقعات دیہاتی اور شہری علاقوں سمیت سارے ملک میں ہورہے ہیں زیادہ تر قریبی رشتہ دار‘ اساتذہ اور دینی تعلیم دینے والے لوگ ایسے واقعات میں ملوث ہیں۔ قصور میں ہونے والے واقعہ پر جن لوگوں پر شبہ ہے وہ گرفتار ہیں ڈی این اے لیا جارہا ہے جے آئی ٹی دنوں میں نہیں گھنٹوں تک ملزم تک پہنچے گی۔ واقعے کے ردعمل میں واقعات افسوسناک ہیں ہسپتالوں سمیت املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔

ڈیڑھ درجن سے زائد پولیس اہلکار زخمی ہوئے ایم پی اے اور ایم این اے کے ڈیرے کو جلایا گیا اس طرح کے واقعات کے بعد اپنے سیاسی مخالفین کو جلائو گھیرائو کا نشانہ بنانا افسوسناک ہے حال ہی میں ختم نبوت کے معاملے پر ایک جماعت کو نشانہ بنایا گیا قصور میں بھی ایسا کیا گیا۔ قل کے نام پر اکٹھا کرکے لوگوں کو اکسایا گیا تین ایف آئی آڑ درج کی گئیں فوٹیج موجود ہیں جس میں لوگوں کو اکسایا جارہا ہے۔

37 لوگوں کو گرفتار کیا گیا اکسانے والوں کی نشاندہی ہورہی ہے۔ سیاسی انتقام اس طرح کے واقعات پر مخالفین سے نہ لیا جائے ایسے واقعات پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہ کی جائے دھرنے والے دنوں میں بھی اس طرح کے واقعات ہوئے۔ اس معاملہ پر بالغ نظری سے کام لینا چاہئے۔ پنجاب پولیس پر بطور ادارہ ٹارگٹ نہیں کرنا چاہئے۔ انفرادی لوگوں کی غلطی پر پورے ادارے کو بدنام نہیں کرنا چاہئے انفرادی طور پر غلطی پر سزا ضرور ہونی چاہئے جس پولیس اہلکار نے گولیاں چلائیں ان کو گرفتار کیا گیا ہے ان کو سزا ملے گی پنجاب پولیس جلد مجرم تک پہنچے گی ایوان یہ معاملہ حل کرے کہ سیاسی جماعتوں کے لوگ ایسے واقعات کے بعد اپنے سیاسی مقاصد کے لئے پوائنٹ سکورنگ نہ کریں اور مخالفین کو انتقام کا نشانہ نہ بنائیں۔

ایوان ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کمیٹی بنائی جائے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کرائمز کی روک تھام کے لئے صوبوں کو بھی جھنجھوڑا جائے کہ وہ اقدامات کریں سپیکر نے کہا کہ ایک کمیٹی ضرور بنائیں گے۔ علی محمد خان نے کہا کہ ہماری پارٹی نے تحریک پیش کی تھی کہ اعلیٰ عدالتوں کا دائرہ اختیار فاٹا تک بڑھایا جائے یہ درت اقدام ہے جلد فاٹا خیبرپختونخوا میں ضم ہوگا۔

زینب کا واقعہ نہایت افسوسناک ہے مقامی پولیس کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ تینس و بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعہ میں مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جاتا تو یہ واقعہ نہ ہوتا۔ زینب جب کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہوئی تو ڈی پی او نے کہا کہ پولیس کو انعام دیں جنہوں نے بچی کی لاش برآمد کی۔ پنجاب پولیس کو ڈسپلن ٹھیک کیا جائے حکومت پنجاب سخت قدم اٹھائے۔

خیبرپختونخوا میں اس طرح کے واقعات میں تمام ملزموں کو گرفتار کیا گیا مجرموں کو قرآن کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں ۔ ایسے مسائل پر تمام قیادت کو اکٹھا ہو کر حل کرنا ہوگا۔ معاملہ پر پارلیمنٹ کی کمیٹی بنائی جائے جو اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کرے اور صوبوں سے رپورٹ لے اور سخت اقدامات تجویز کرے تاکہ عدالتوں کو سوموٹو لینے کی ضرورت نہ پڑے مجرموں کو لٹکانا چاہئے۔ سپیکر نے کہا کہ انسانی حقوق کی کمیٹی ہے تحریری طور پر تجاویز دیں اجتماعی طور پر سب رائے دیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام کیسے کی جائے کوئی قدم ضرور اٹھانا چاہئے اس اجلاس کے دوران سب تجاویز دیں۔