لوگوں کی جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے ،ْناکامی پرحکومت کو اعتراف کر لینا چاہیے ،ْ اپوزیشن

کب تک مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہر جگہ جائیں گی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام خود کو محفوظ سمجھیں ،ْخورشید شاہ واقعات صرف قصور میں نہیں ،ْ لاڑکانہ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں بھی ہوتے ہیں ،ْ کیا ابھی تک کس نے ملزمان کو سزا دی ہی محسن شاہ نواز رانجھا ہم نے قانون سازی کی اور سزا کو بڑھایا اور بچوں کے ساتھ زیادتی کو سزا بنایا ،ْبچوں سے ریپ کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے ،ْوزیر مملکت ْقصور بچی کے قتل اور مظاہرے کے دوران 2 افراد کے قتل میں بھی شفاف تحقیقات کی جائیں ،ْ شیریں مزاری بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالے سے تعلیمات دی جائیں اور میڈیا پر اس حوالے سے آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں ،ْخطاب

جمعہ 12 جنوری 2018 14:45

لوگوں کی جان ومال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے ،ْناکامی پرحکومت کو ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 12 جنوری2018ء) قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے کہا ہے کہ لوگوں کی جان و مال کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں وہ ناکام ہوگئی اور حکومت کو اس کا اعتراف کر لینا چاہیے۔ جمعہ کوقومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما خورشید شاہ نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی عزت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری حکومت کی ہے جس میں حکومت ناکام ہوگئی ہے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ یہ واقعہ قصور تک محدود نہیں ہر شہر اور ہر گاؤں میں ہے اور ایسے واقعات میں تحفظ دینا حکومت کی ذمہ داری ہے جس میں پنجاب حکومت ناکام ہوگئی۔انہوں نے سوال کیا کہ کب تک مائیں اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہر جگہ جائیں گی حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے عوام خود کو محفوظ سمجھیں۔

(جاری ہے)

اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ یہ واقعہ قصور میں نہیں ہر جگہ ہے، یہ واقعہ حکومت کی ناکامی ہے، اس مسئلے کو قرارداد، وعدوں اور تقریروں تک محدود نہ کیا جائے، صرف سزا کافی نہیں، ایسے واقعات روکنے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ،ْایک ایس پی کو ہٹا دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے، یہ پارلیمنٹ نتیجہ مانگے گی، ان ماں باپ کو نتیجہ دیں۔

خورشید شاہ نے کہا کہ قصور واقعے نے پورے ملک کو متاثر کیا ہے ،ْ جن کی بچیاں ہیں وہ تشویش میں ہیں، ہر ماں اپنی بیٹی کے ساتھ کہاں کہاں جائیگی انہوںنے کہا کہ حکومت نے پانچ سال کے عرصے میں ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں، حکومت بالکل ناکام رہی ہے۔اس موقع پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور محسن شاہ نواز رانجھا نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایسے واقعات صرف قصور میں نہیں بلکہ لاڑکانہ اور ڈیرہ اسمٰعیل خان میں بھی ہوتے ہیں ،ْ کیا کہ ابھی تک کس نے ملزمان کو سزا دی ہی انہوں نے کہا کہ ہمیں معاشرے کی بہتری کیلئے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور سوال کرنا چاہیے کہ اراکین اسمبلی نے خود کتنی مرتبہ اپنے اپنے حلقوں میں اس طرح کے واقعات کتنی مرتبہ ایسے کیسز کی پیروی کی ہو یا اس کی ایف آئی آر کے بارے میں کام کیا معلومات حاصل کی ہوں انہوں نے مطالبہ کیا کہ بچوں سے ریپ کرنے والے مجرموں کو سرعام پھانسی دینی چاہیے۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ہم نے قانون سازی کی اور سزا کو بڑھایا اور بچوں کے ساتھ زیادتی کو سزا بنایا۔انہوںنے کہا کہ قصور جیسے واقعات پرناکامی ہرجگہ پر ہے تاہم قصور جیسے معاملات سے نمٹنے کے لیے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا۔اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما شیریں مزاری نے کہا کہ ایسے واقعات میں عمر قید کی سزا قوم اور قوم کے بچوں کے ساتھ مذاق ہے۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ قصور بچی کے قتل اور مظاہرے کے دوران دو افراد کے قتل میں بھی شفاف تحقیقات کی جائیں۔رہنما تحریک انصاف نے کہا کہ قصور واقعے سے ظاہر ہے حکومت ناکام ہوچکی ہے اور اسے اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ قصور واقعہ علاقے میں 12واں واقعہ ہے اور ان تمام واقعات میں 5 ڈی این اے سیمپل میچ ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ علاقے میں ایک سلسلہ وار قاتل موجود ہے تو حکومت کیا کر رہی تھی اور اس تمام تر صورتحال کے باوجود کہا جاتا ہے کہ اس مسئلے کو سیاست کا رنگ نا دیاجائے۔

شیریں مزاری نے کہا کہ اس معاملے میں قرارداد پاس کرنا بے معنی ہیں، بلکہ اس معاملے میں عملی کارروائی کا مطالبہ ہونا چاہیے اور کارروائی کی نگرانی ایک پارلیمانی کمیٹی کو کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ قصور کے لوگوں کو پنجاب حکومت پر اعتماد ہی نہیں ہے وہ کبھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور کبھی چیف جسٹس پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انہیں انصاف دلوایا جائے۔شیریں مزاری نے مطالبہ کیا کہ بچوں کو جنسی ہراساں کرنے کے حوالے سے تعلیمات دی جائیں اور میڈیا پر اس حوالے سے آگاہی مہمات بھی چلائی جائیں۔

متعلقہ عنوان :