بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے نامزد امیدوارعبدالقدوس بزنجو ،عبدالمالک بلوچ کے دور میں ڈپٹی سپیکر رہے

معاہدے کے تحت عبدالمالک کی مدت پوری ہونے پر نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کی،جان جمالی کے استعفے پر سپیکر بننے کے خواہا ں تھے ، مسلسل دومرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے اب وزارت اعلیٰ کی ہما عبدالقدوس بزنجو کے سر جا بیٹھی ، پارلیمانی پارٹیوں نے قائد ایوان کیلئے امیدوار نامز د کردیا

جمعرات 11 جنوری 2018 22:13

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 11 جنوری2018ء) بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کے امیدوار نامزد ہونے والے میر عبدالقدوس بزنجو عبدالمالک بلوچ کے دور میں صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر رہے جبکہ معاہدے کے تحت عبدالمالک کی مدت پوری ہونے پر ان کو مزید آگے جانے سے روکنے کیلئے وزارت اعلیٰ کے امیدوار کے لئے نواب ثناء اللہ زہری کی حمایت کی، مسلسل دومرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے۔

تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی پارلیمانی جماعتوں کی جانب سے نئے قائد ایوان کے طور پر نامزد کئے جانے والے (ق)لیگ کے رہنما میر عبدالقدوس کا پارلیمانی پس منظر کچھ یوں ہے، عبدالقدوس 2013کے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ عبدالمالک کے دور میں وہ صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر بنے۔ بعد ازاں جب پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر سپیکر جان محمد جمالی سے استعفیٰ لیا گیا اور ان کی جگہ راحیلہ درانی کو سپیکر بنایا گیا تو اس دوران عبدالقدوس بزنجو نے ڈپٹی سپیکر شپ سے استعفیٰ دے دیا، ان کی یہ خواہش تھی کہ یا تو انہیں سپیکر صوبائی اسمبلی بنایا جائے یا پھر کوئی وزارت دے دی جائے تاہم دوسری جانب (ن) لیگ کی اتحادی جماعتوں نے اس وقت کے وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری پر شرط رکھی تھی کہ عبدالقدوس کو کوئی عہدہ نہ دیا جائے۔

(جاری ہے)

ذرائع کے مطابق (ن)لیگ اور نیشنل پارٹی کے درمیان معاہدے کی مدت پوری ہونے پر وزیراعلیٰ عبدالمالک آگے جانا چاہتے تھے تو اس دوران عبدالمالک کو توسیع سے روکنے کیلئے عبدالقدوس نے ان کی مخالفت کی اور وزیراعلیٰ بننے کیلئے ثناء اللہ زہری کی بھی مخالفت کی، اب ان کی قسمت بدل گئی اور اب پارلیمانی جماعتوں نے میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ کا امیدوار نامزد کر دیا ہے، وہ (ن) لیگ کے ٹکٹ سے 2008اور 2013میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

2015میں جب جاں جمالی نے سینیٹ پر اپنی بیٹی کو کھڑا گیا تو اس دوران پارٹی نے ان سے ایسا کرنے کو منع کرتے ہوئے پارٹی امیدواروں کی حمایت کا کہا، جس سے انہوں نے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر انہیں سیکرٹریٹ سے ہاتھ دھونا پڑ گئے۔