زینب قتل کیس:قصور میں پولیس کی مظاہرین پر سیدھی فائرنگ2ہلاک‘درجنوں زخمی‘ چیف جسٹس آف پاکستان کا سخت نوٹس جواب طلب کرلیا‘آرمی چیف کی ملزمان کی گرفتاری کے لیے فوج کو سول انتظامیہ کی مدد کرنے کی ہدایت

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 10 جنوری 2018 18:48

زینب قتل کیس:قصور میں پولیس کی مظاہرین پر سیدھی فائرنگ2ہلاک‘درجنوں ..
قصور(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔10 جنوری۔2018ء) قصور میںکم سن بچی زینب سے زیادتی و قتل کے خلاف شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین پر پولیس کی فائرنگ سے 2 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے جبکہ انتظامیہ نے حالات پر قابو پانے کے لیے رینجرز کو طلب کرلیا ہے۔ قصور میں کم سن زینب سے زیادتی و قتل کے واقعے کیخلاف خواتین سمیت بڑی تعداد میں شہری سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس و انتظامیہ کی نااہلی کیخلاف شدید احتجاج کیا۔

واقعے کے خلاف شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور کاروبار زندگی متاثر رہا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ زینب 5 روز سے اغوا تھی لیکن اس کے باوجود پولیس نے اس کی بازیابی کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔مظاہرین نے کمشنر آفس پر دھاوا بولتے ہوئے دفتر کا گیٹ توڑ دیا اور ڈنڈوں سے گاڑیوں کے شیشے توڑ دیے۔

(جاری ہے)

مشتعل افراد نے پولیس پر پتھراﺅ کیا جس پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست سیدھی فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 2 افراد جاں بحق ہوگئے جن کی شناخت علی اور شعیب کے نام سے ہوئی ہے ہلاک ہونے والوں میں سے ایک طالب علم بھی شامل ہے جبکہ پولیس کی گولیوں سے زخمی ہونے والے درجنوں شہری ہسپتالوں میں پڑے ہیں۔

آئی جی پنجاب عارف نواز نے کہا ہے کہ تفتیش کریں گے کہ پولیس نے مظاہرین پر گولی کیوں چلائی۔مظاہرین دونوں لاشیں پوسٹ مارٹم کرائے بغیر ہسپتال سے باہر لے آئے اور میتیں ڈی ایچ کیو ہسپتال کے سامنے رکھ کر دھرنا دے دیا۔ ہسپتال میں آنے والے پولیس اہلکاروں پر مظاہرین نے حملہ کردیا تو پولیس اہلکار جان بچانے کے لیے ہسپتال میں چھپ گئے۔ چاروں طرف مظاہرین کا راج ہے جو حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کررہے ہیں اور بچی سے زیادتی کے ذمہ دار شخص اور دو مظاہرین کے قتل میں ملوث پولیس اہلکاروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کررہے ہیں۔

پورے شہر میں ہنگامے ہورہے ہیں اور جگہ جگہ شہری احتجاج کررہے ہیں جبکہ واقعے پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ محکمہ داخلہ پنجاب نے قصور میں رینجرز تعینات کرنے کی منظوری دے دی۔پولیس کے مطابق 8 سالہ بچی زینب جمعرات کو رود کوٹ کے علاقے میں ٹیوشن پڑھنے گئی تھی لیکن وہاں سے گھر واپس نہیں پہنچی قصور میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کا یہ 10واں واقع ہے۔

بچی کے والدین عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے ہوئے تھے جب کہ خاندان کے دیگر افراد نے بچی کی گمشدگی کی اطلاع پولیس کو دی۔بچی کے لواحقین کی فراہم کردہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں اس بچی کو صدر پولیس تھانے کی حدود میں ایک نامعلوم شخص کے ساتھ دیکھا گیا۔لیکن چار روز گزرنے کے باوجود بچی کا کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا اور گزشتہ روز لوگوں کو کچرے کے ایک ڈھیر سے زینب کی لاش ملی جس پر پولیس کو اطلاع کی گئی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق بچی کو متعدد بار جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد گلا دبا کر ہلاک کیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے والے بظاہر ایک ہی شخص ہے اور اس کا کھوج لگانے کے لیے پولیس کے دو سو سے زیادہ افسران کوشاں ہیں۔لاش ملنے کی خبر سامنے آتے ہی بچی کے رشتے دار اور دیگر اہل علاقہ احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور مختلف مقامات پر ٹائر جلا کر ٹریفک بلاک کردی۔

قصور میں بدھ کو شہر کی فضا سوگوار ہے اور کاروباری مراکز بند ہیں جب کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے واقعے پر احتجاج اور سوگ کے لیے ہڑتال کی ہے۔ بچی کی نمازِ جنازہ حکومت مخالف جماعت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی جس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کرنے میں ناکام ہونے والے حکمرانوں کو اخلاقی طور پر فوراً اقتدار سے علیحدہ ہو جانا چاہیے۔

ادھر وزیراعلیٰ شہباز شریف نے واقعے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ خود اس معاملے میں پیش رفت کی نگرانی کریں گے۔ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد انہوں نے کہا کہ متعلقہ حکام پر واضح کر دیا ہے کہ اس معاملے پر زبانی کلامی کچھ نہیں ہوگا اور اگر اس واقعے کے ذمہ داران کو فوری گرفتار نہیں کیا جاتا تو حکام کے خلاف کارروائی ہوگی۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کے علاوہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور داخلہ نے بھی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب پولیس کے سربراہ سے رپورٹ طلب کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا ہے کہ قصور میں معصوم بچی کے قتل کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لاکر عبرتناک سزادی جائے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے بچی کے قتل کے مذمت کی اور والدین کی اپیل پر فوری کارروائی کی ہدایت کی ہے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے ملزمان کی فوری گرفتاری کے لئے فوج کو ہدایت کی ہے کہ سول انتظامیہ سے ہر ممکن مدد دی جائے۔ چیف جسٹس جسٹس ثاقب نثار نے بھی قصور میں لاپتہ ہونے والی8 سالہ زینب کی تشدد زدہ لاش ملنے کے بعد اس واقعے کا از خود نوٹس لے لیا ہے۔دوسری جانب جماعت اسلامی نے قصور واقعے کے بارے میں پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک التوا قومی اسمبلی میں جمع کروائی ہے۔

تحریک التوا میں کہا گیا ہے کہ زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے سے پہلے اسے اغوا کیا گیا لیکن بازیاب نہیں کروایا گیا۔اس تحریک التوا میں مزید کہا گیا ہے کہ قصور میں اس سے پہلے بھی کمسن بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کے واقعات رونما ہو چکے ہیں لیکن پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت نے اس ضمن میں عملی اقدامات نہیں کیے جس کی وجہ سے ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس تحریک التوا میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ انتہائی اہمیت کا معاملہ ہے اس لیے ایوان کی معمول کی کارروائی معطل کرکے اس معاملے کو زیر بحث لایا جائے۔