سات سالہ بچی سے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعہ کیخلاف سارا شہر سراپا احتجاج بن گیا ،

مشتعل مظاہرین کا ڈی سی آفس پر دھاوا ،پولیس کی مبینہ فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ، ایک زخمی،لاٹھی چارج سے بھی متعدد زخمی مظاہرین نے عمارت کو نقصان پہنچانے کیساتھ سرکاری و نجی گاڑیاں توڑ ڈالیں، مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھرائو کیا گیا واقعہ کیخلاف قصور شہر میں تمام تجارتی مراکز بند رہے ،ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے رینجرز طلب طاہرالقادری نے بچی کی نمازجنازہ پڑھائی ،ہزاروں افراد کی شرکت ،آج سانحہ ماڈل ٹائون کی تاریخ دہرائی گئی ‘ سربراہ عوامی تحریک

بدھ 10 جنوری 2018 17:21

سات سالہ بچی سے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعہ کیخلاف سارا شہر سراپا ..
قصور/لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 جنوری2018ء) قصور میں سات سالہ بچی سے مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے واقعہ کیخلاف سارا شہر سراپا احتجاج بن گیا ،مشتعل مظاہرین نے ڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بول دیااور عمارت کو نقصان پہنچانے کے ساتھ سرکاری و نجی گاڑیاں توڑ ڈالیں،احتجاج کرنے والے مشتعل مظاہرین پر مبینہ طو رپر پولیس کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق اور ایک زخمی ہوگیا جبکہ پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج سے بھی کئی مظاہرین زخمی ہو گئے، مظاہرین کی جانب سے پولیس پر پتھرائو کیا گیا ، واقعہ کیخلاف قصور شہر میں تمام تجارتی مراکز بند رہے ،ضلعی انتظامیہ کی درخواست پر حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے رینجرز کو طلب کرلیا گیا ،عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹرطاہرالقادری نے بچی کی نمازجنازہ پڑھائی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ،چیف جسٹس ہائیکورٹ نے واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کر لی۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق سات سالہ بچی زینب کے اغواء ہونے کے بعد مبینہ زیادتی کے بعد قتل کے خلاف مختلف مقامات پر احتجاجی مظاہرے ہوئے ۔ مظاہرین ہاتھوں میں ڈنڈے اور پتھر اٹھا کر پولیس کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ۔ اس دوران مشتعل مظاہرین نے کئی مقامات پر ٹائروں کو آگ جلا کر ٹریفک کے لئے معطل رکھا ۔دوپہر تک مظاہرین کی تعداد میں کئی گنا ضافہ ہوگیا اور مشتعل مظاہرین ڈپٹی کمشنر آفس کا دروازہ توڑ کر اندھا داخل ہوگئے اور ڈنڈوں اور پتھرما رکر احاطے میں کھڑی ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل کی گاڑی سمیت سرکاری اور نجی گاڑیاں توڑ ڈالیں جبکہ مظاہرین کی جانب سے عمارت پر بھی پتھرائو کیا گیا ۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور ہوائی فائرنگ کی گئی ۔مظاہرین منتشر ہونے کے بعد دوبارہ جتھوں کی صورت میں ڈپٹی کمشنر آفس پر دھاوا بولتے ہوئے پتھرائو کرتے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مبینہ طور پر پولیس کی ہوائی فائرنگ سے دو مظاہرین جاں بحق جبکہ ایک زخمی ہو گیا جبکہ پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج بھی کیا گیا جس سے متعدد مظاہرین زخمی ہوئے ۔

مظاہرین کی جانب سے بھی پولیس پر پتھرائو کیا گیا جس سے پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔زخمی ہونے والوں کو طبی امداد کے لئے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ۔ واقعے کے خلاف شہر میں مکمل ہڑتال کی گئی اور کاروبار زندگی مکمل معطل رہا ۔ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے بدھ کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کیا گیا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مبینہ زیادتی کے بعد قتل ہونے والی زینب کی نماز جنازہ کالج گرائونڈ میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ نماز جنازہ عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پڑھائی ۔ نماز جنازہ میں پیپلز پارٹی پنجاب کے جنرل سیکرٹری چوہدری منظور، ڈاکٹر طاہر القادری کے صاحبزادے حسین محی الدین ، عوامی تحریک کے سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈا پور سمیت سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی ۔

اس موقع پر ڈاکٹر طاہر القادری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قصور والوں کے ساتھ یہ بارویںبار ہوا ہے، اللہ ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائے اور اس دھرتی پر امن قائم فرمائے۔انہوں نے کہا کہ جس دور حکومت میں بچیوں کو تحفظ فراہم نہ ہوں ایسی حکومت کو اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں، زینب کا قتل انسانیت کی تذلیل ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کہاں ہو آئو یتیموںاورمظلوموں کے ساتھ کھڑے ہو، شہباز شریف آئو مظلوموںکو مل کر سہارا دو ۔

انہوں نے کہا کہ پولیس کی فائرنگ سے دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوئے ، یہ چھوٹا ماڈل ٹائون کا سانحہ ہے ،آج سانحہ ماڈل ٹائون کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔ ریجنل پولیس افسر نے میڈیا کو بتایا کہ بچی کی موت گلا دبانے سے ہوئی ۔انہوں نے امکان ظاہر کیا کہ ہوسکتا ہے اس بچی کے قتل میں 2 افراد ملوث ہوں تاہم بہت جلد ملزمان قانون کی گرفت میں ہوں گے۔ انہوںنے بتایا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے رپورٹ میں موت کی وجہ نہیں لکھی گئی ۔ مختلف نمونے فرانزک رپورٹ کے لئے بھجوا دئیے گئے ہیں اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے ہدایت کی ہے کہ اس کی رپورٹ ترجیحی بنیادوں پر فراہم کی جائے۔