وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری عہدے سے مستعفی ،ْگورنر نے استعفیٰ قبول کرلیا

اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کر نے کی ہر ممکن کوشش کی ،ْ معاملے میں مثبت پیشرفت نہیں ہوسکی تھی ،ْ ثناء اللہ زہری مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا، اللہ کا شکر ہے بلوچستان میں امن و امان بحال کی صورتحال بہت بہتر ہے ،ْ بیان

منگل 9 جنوری 2018 18:52

وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری عہدے سے مستعفی ،ْگورنر نے استعفیٰ ..
کوئٹہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 جنوری2018ء) وزیراعلیٰ بلوچستان ثناء اللہ زہری اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے ہیں ،ْگورنر نے ان کا استعفیٰ قبول کرلیا ہے۔ نواب ثناء اللہ زہری نے اپنے استعفے میں انتہائی مختصر عبارت لکھی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 130(8)کے تحت اپنا استعفیٰ دیتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ اپنی ساتھیوں پر زبردستی مسلط نہیں ہونا چاہتا ہوں وزیراعلیٰ بلوچستان نواب ثناء اللہ کے خلاف اسمبلی میں منگل کو تحریک عدم اعتماد پیش کی جانی تھی لیکن انہوں نے اسمبلی اجلاس سے قبل ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیاوزیراعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری نے اپنا استعفیٰ گورنر ہاوس بلوچستان جاکر گورنر محمد خان اچکزئی کودیا جسے انہوں نے قبول کرلیا۔

بعد ازاں میڈیا کو جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں نواب ثناء اللہ زہری نے کہا کہ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بلوچستان کے سیاسی حالات بہت کشیدہ ہوگئے تھے جس میں ان کے ساتھیوں ان پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے تحفظات دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت اور وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی بھی کوئٹہ تشریف لائے تاہم اس معاملے میں مثبت پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔

نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ 2 برس سے نہ صرف حکومتی اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کی بلکہ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اپنے ساتھ رکھا۔انہوں یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اکثر تقاریب میں ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی ان کے ساتھ ہوا کرتے تھے جس پر میڈیا کو حیرانی ہوا کرتی تھی۔انہوں نے بتایا کہ سیاسی عمل کیساتھ ساتھ انہوں نے کوشش کی کہ صوبے میں حکومتی عمل داری قائم رہے اور یہاں امن و امان قائم ہو۔

نواب ثناء اللہ زہری کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ بلوچستان میں امن و امان بحال کی صورتحال بہت بہتر ہے جس کے لیے پولیس، فرنٹیئرکور (ایف سی)، لیویز اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سخت محنت کی اور بلوچستان کے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا۔انہوںنے کہاکہ مخلوط حکومت چلانا اتنا آسان نہیں ہوتا، حکمراں جماعت نے اکثریت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی اور اس کے لیے صوبے میں اپنی اتحادی جماعتوں کے بھی مشکور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں طاقت اور اقتدار اس اسمبلی نے دیا اور وہ محسوس کر رہے ہیں کہ اکارنِ اسمبلی کی بڑی تعداد ان کی قیادت سے مطمئن نہیں ہے اسی لیے وہ وزارتِ اعلیٰ کے منصب پر زبر دستی فائز نہیں رہنا چاہتے۔انہوں نے لکھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی وجہ سے صوبے کی سیاسی پر کوئی منفی اثر پڑے اس لیے وہ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہے ہیں۔نواب ثناء اللہ زہری نے صوبے میں سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور صوبے کی ترقی کے حوالے سے نیک خواہشات کا بھی اظہار کیا۔

یاد رہے کہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے مسلم لیگ (ن) کے ناراض قانون سازوں کو منانے کے لئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دورہ کوئٹہ کانامی سے دوچار ہوگیا تھا۔واضح رہے کہ بلوچستان کے سابق وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی قیادت میں درجن بھر سے زائد مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکینِ اسمبلی نے وزاعلیٰ بلوچستان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے کوئٹہ کے ہنگامی دورے پر گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی، وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری ، پشتونخواملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے قانون سازوں سے ملاقات کی تاہم اتحادی جماعتوں کے بھرپور اصرار کے باوجود ناراض صوبائی اسمبلی کے اراکین نے گورنر ہاؤس کے عشائیے میں شرکت نہیں کی۔خیال رہے کہ بلوچستان اسمبلی میں وزیرِاعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد جاری کی جانی تھی جبکہ اس ضمن میں بلوچستان اسمبلی کی اسپیکر راحیلہ حمید خان درانی نے میڈیا کو اجلاس کی کارروائی کی کوریج سے روکنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ وزیراعلی بلوچستان نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف بلوچستان کی اسمبلی سیکریٹریٹ میں تحریک عدم اعتماد جمع کراتھی۔تحریک عدم اعتماد مسلم لیگ (ق) کے رکن بلوچستان اسمبلی اور سابق ڈپٹی اسپیکر عبدالقدوس بزنجو نے جمع کروائی تھی۔اس تحریک کو جمع کرانے کی وجوہات پر اظہار خیال کرتے ہوئے عبدالقدوس بزنجو کا کہنا تھا کہ ملازمتوں میں مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کے ارکان کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی ان 14 ارکان کو نظر انداز کیا گیا۔

متعلقہ عنوان :