وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان کا کردار اہمیت اختیار کرگیا

بلوچستان کے حوالے سے اگلے چار روز اہم ہیں،صوبے میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا اس کیلئے ہمیں دوچارروز انتظار کرناچاہیے،سربراہ جمعیت علما اسلام (ف)

ہفتہ 6 جنوری 2018 22:52

وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے مولانا فضل ..
کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 06 جنوری2018ء) وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے وفاق میں پاکستان مسلم لیگ (ن)کے اتحادی مولانا فضل الرحمان کا کردار اہمیت اختیار کرگیا مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان کے حوالے سے اگلے چار روز کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں وزارت اعلیٰ کا امیدوار کون ہوگا اس کیلئے ہمیں دوچارروز انتظار کرناچاہیے وزیراعظم تحریک عدم اعتماد ناکام بنانے کیلئے مولانا فضل الرحمان کو آمادہ نہ کرسکے انہوں نے واضح کردیا ہے کہ بلوچستان میں ان کی جماعت عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے والے اپنے دوستوں کا ساتھ دے گی انھوں نے امریکی دھمکیوں کے معاملے پرپارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کردیا ہے مولانا نے ٹرمپ کے بیان پر سیاسی اور عسکری قیادت کے سخت موقف کو وقتی قرار دیدیانرم بات کرنے پر عوام کا ردعمل آتا ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کااظہار انہوں نے گزشتہ روز اپنے ایک انٹرویو میں کیا۔مولانا فضل الرحمان بلوچستان اور کے پی کے میں نظرانداز کیے جانے پر مسلم لیگ (ن )سے سخت ناراض ہیں ۔جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ نے کہا کہ صوبوں میں مسلم لیگ ن کے نامناسب رویہ کے بعد کس منہ سے بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد روکنے کے لئے کہوں ۔ جے یوآئی ابتدا ء دن سے ہی بلوچستان میں اپوزیشن کا حصہ ہے۔

صوبے میں بطور اپوزیشن اپنے دوستوں کے ساتھ چلے گی۔ بلوچستان میں جو بھی ہوا ہے صوبائی سطح پر ہوا ہے ۔ وزیر اعظم سے ملاقات میں بلوچستان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی ۔ وزیراعظم سے کہا کہ بلوچستان میں جو ہو رہا صوبائی معاملہ ہے ۔بلوچستان میں حکومت بناتے وقت مسلم لیگ ن نے جے یوآئی سے رابطہ کرنے کی تکلیف تک گوارا نہ کی تھی۔ اسی طرح شہباز شریف دو مرتبہ کوئٹہ گئے لیکن انھوں نے بھی ہماری جماعت سے ملاقات تک گوارا نہ کی۔

مرکز میں حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود ہم سے بلوچستان میں بات چیت نہ کی گئی ۔ موجودہ صورتحال میں اب بلوچستان میں اپنے دوستوں سے کیا کہوں ایک سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمان نے ٹرمپ کے بیان پر سیاسی اور عسکری قیادت کے سخت موقف کو وقتی قرار دیدیانرم بات کرنے پر عوام کا ردعمل آتا ہے۔انھوں نے کہا ہے کہ ہم نے مستقل طور پر آزاد خارجہ پالیسی کا تعین نہیں کیاپاکستانی قوم بہادر ہے لیکن اداروں نے اس پر خوف مسلط کیا ہوا ہے۔

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو نئے زمانے میں داخل ہونے والی دنیا میں اپنی ترجیحات کو دیکھنا چاہیے۔ دہشتگردی کے خلاف ایکشن پلان سے زیادہ ہمیں غربت کے خلاف اقتصادی ایکشن پلان کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا اتحادی بنتے وقت ہم نے کہا تھا کہ یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا۔ سولہ سال بعد ہم اس دلدل میں مزید دھنستے چلے جا رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا بلوچستان میں ساتھ نہ دینے کے سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ہم بلوچستان میں اپوزیشن میں ہیں ہمیں بھی تو صوبوں میں ان کا تعاون نہیں ملاتھا۔ ہم نے خیبرپختونخوا میں مل کر حکومت بنانے کے لیے کہا لیکن ہماری نہیں مانی گئی دھرنوں کے دوران خیبر پختونخوا میں تحریک عدم اعتماد کی ہماری تجویز بھی مسلم لیگ ن نہ مانی۔ ہم نے پھر تحریک عدم اعتماد کے لیے کہا سب جماعتیں مان گئیں لیکن مسلم لیگ ن نہ مانی ۔

سینٹ کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن نے ھماری بجائے تحریک انصاف کو ووٹ دیے مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان کے حوالے سے اگلے چار روز کو اہم قرار دے دیا بلوچستان میں وزارت اعلی کا امیدوار کون ہوگا چند دن انتظار کرلیں،فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ہم نے مرکز میں مسلم لیگ ن سے اتحاد اور دوستی کو وفاداری سے نبھایا ہے۔

متعلقہ عنوان :