امریکی صدر کے ٹویٹ کا مناسب فورمز کے ذریعے جواب دیدیا گیا، کوئی این آر او نہیں ہو رہا، قیاس آرائیاں مناسب نہیں، مسلم لیگ (ن) کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، میری کوشش ہے کہ سیاست مستحکم ہو، انتخابات وقت پر اور منصفانہ ہوں ، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں کیں، سب سے زیادہ نقصان اٹھایا،افغانستان سے دہشت گرد آ کر ہمارے ملک میں حملے کر رہے ہیں، دنیا افغانستان میں امن قائم کرے، اس سلسلہ میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں،28 جولائی کے فیصلہ کو عوام نے قبول نہیں کیا،یہ ممکن نہیں کہ حکومت اور فوج کے تعلقات خراب ہوں، ہمیشہ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ سول ملٹری تعلقات خراب ہوں اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے، یہ عناصر بیرونی امداد سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہو گی،ٹیکنو کریٹ حکومت کی آئین میں گنجائش نہیں

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو

جمعہ 5 جنوری 2018 23:21

امریکی صدر کے ٹویٹ کا مناسب فورمز کے ذریعے جواب دیدیا گیا، کوئی این ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 جنوری2018ء) وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ امریکی صدر کے ٹویٹ کا مناسب فورمز کے ذریعے جواب دیدیا گیا، کوئی این آر او نہیں ہو رہا، اس حوالہ سے قیاس آرائیاں مناسب نہیں، یہ فیصلہ جماعت کا ہو گا کہ ملک کا آئندہ وزیراعظم کس نے بننا ہے، مسلم لیگ (ن) کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرے گی، میری کوشش ہے کہ سیاست مستحکم ہو، انتخابات وقت پر اور منصفانہ ہوں تاکہ جمہوریت کا سفر چلتا رہے، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں کیں اور سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، ہم نے پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کر دیا، افغانستان سے دہشت گرد آ کر ہمارے ملک میں حملے کر رہے ہیں، دنیا کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کرے، اس سلسلہ میں ہم اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

(جاری ہے)

جمعہ کو ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں وزیراعظم نے کہا کہ کوئی این آر او نہیں ہو رہا، مجھ سے کسی نے این آر او کی بات نہیں کی، این آر او پاکستان کا قانون تھا،سعودی عرب کا نہیں، نواز شریف اور شہباز شریف نجی دورہ پر سعودی عرب گئے، ان کے اپنے تعلقات ہیں اور وہ اکثر عمرے پر بھی جاتے ہیں، اس حوالہ سے قیاس آرائی کرنا یا اخبارات کی زینت بنانا مناسب نہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں مسلم لیگ (ن) کا نمائندہ ہوں، میری کوشش ہے کہ سیاست مستحکم ہو، انتخابات وقت پر اور منصفانہ ہوں تاکہ ملک میں جمہوریت کا سفر چلتا رہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 28 جولائی کو عدالت کا جو فیصلہ آیا اس پر رائے زنی نہیں کروں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا اسے عوام نے قبول نہیں کیا، فیصلہ کے پیمانے کے بارے وقت خود بتا دے گا، ہم نے اس پر عمل کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے، یہاں جس کے پاس 10 ہزار ووٹ نہیں وہ بھی دھرنا دے دیتے ہیں، اگر نواز شریف نے عوامی قوت کا مظاہرہ کیا تو یہ ان کا حق ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہاں ایک جملہ سے شکوک و شبہات پیدا کر دیئے جاتے ہیں، بات کو ہمیشہ درست تناظر میں لینا چاہئے، سیاسی لوگ تبصرہ کرتے ہیں یہ ان کا کام ہے۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی نے مجھے وزیراعظم بنایا، میں نے کام کرنا ہے، کام کرنے کا طریقہ کار اپنا اپنا ہوتا ہے، مجھ پر تنقید کرنے والے اپنے دور حکومت کے کام بتا دیں، ہم نے مشکلات کے باوجود کام کئے، جو کام نواز شریف نے شروع کئے وہ ہم مکمل کر رہے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ یہ فیصلہ جماعت کا ہو گا کہ آئندہ وزیراعظم کس نے بننا ہے، کوشش ہے کہ میری جماعت کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں کامیاب ہو۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے امریکی صدر کے ٹویٹ کے حوالہ سے کئے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ اس کا جواب مناسب فورمز کے ذریعے دیدیا گیا، وفاقی کابینہ میں بھی امریکی صدر کے ٹویٹ کا جواب دیا گیا، جس فورم پر جو بات آتی ہے اسی فورم سے جواب دیا جاتا ہے، ذاتی طور پر جواب دینے کے حق میں نہیں ہوں، یہاں حکومت کی طرف سے جواب آنا چاہئے تھا جو دیا گیا جبکہ اس کی قومی سلامتی کونسل میں بھی مذمت کی گئی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے، جس ملک نے اس حوالہ سے بات کی ہم نے اسے جواب دیا، پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ کارروائیاں کیں اور سب سے زیادہ نقصان اٹھایا، ہم نے پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کر دیا ہے، افغانستان سے دہشت گرد آ کر ہمارے ملک میں حملے کر رہے ہیں، اب دنیا کو چاہئے کہ وہ افغانستان میں امن قائم کرے، افغانستان میں قیام امن ہمارے اپنے مفاد میں ہے اور ہم اس کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ پاک فوج کے سربراہ ہیں اور فوج حکومت کا حصہ ہے، یہ ممکن نہیں کہ سول حکومت اور فوج کے تعلقات خراب ہوں، ہمیشہ ایک طبقہ چاہتا ہے کہ سول اور فوج کے تعلقات خراب ہوں اور وہ اس سے فائدہ اٹھائے، یہ عناصر بیرونی امداد سے تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں کامیابی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ملکوں کے درمیان رابطوں سے مؤقف سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم ٹیکس کی بنیاد کو وسعت دینا چاہتے ہیں، ٹیکس ریٹ کو کم اور ٹیکس کے دائرہ کو بڑھا کر چوری کا راستہ روکا جا سکتا ہے، اس سلسلہ میں ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔ عمران خان کی جانب سے ٹیکس ایمنسٹی لینے کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ٹیکس ایمنسٹی لیتا ہے تو اس کو ڈیکلیئر کرنا چاہئے، میں کسی پر صادق اور امین ہونے یا نہ ہونے کا لیبل لگانے کا قائل نہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایل این جی کے حوالہ سے کئے گئے فیصلہ کی سو فیصد ذمہ داری قبول کرتا ہوں، اس معاملہ میں کوئی چیز ڈھکی چھپی نہیں ہے تاہم کسی بھی سوال کا جواب دینے کیلئے تیار ہوں، بلاجواز الزام تراشیاں اور شکوک و شبہات نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ ایل این جی کی درآمد ملک کیلئے فائدہ مند ہے اور جن نرخوں پر ہم نے ایل این جی درآمد کی وہ سب سے کم ہیں، طویل المدتی معاہدوں سے فائدے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی پیداوار کا مسئلہ حل کر لیا گیا ہے، اب قلت نہیں ہو گی، پاکستان فرنس آئل درآمد کرنے والا دوسرا بڑا ملک تھا، آج فرنس آئل کی درآمد ختم ہو گئی ہے، اس لئے بجلی مہنگی نہیں ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمت اس لئے بڑھی ہے کہ صوبوں میں چوری نہیں روکی جا سکی۔ گوادر کے حوالہ سے ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ ماضی میں حکومتوں نے یہاں پر تختیاں لگائیں اور وعدے کئے لیکن اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا، آج وہاں کام ہوتا نظر آ رہا ہے۔

بلوچستان اسمبلی کی صورتحال سے متعلق ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صوبائی اسمبلی میں ایک ایسے وقت میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی گئی ہے جب اس کی تکمیل میں پانچ ماہ سے بھی کم عرصہ رہ گیا ہے، یہ مناسب اقدام نہیں تاہم یہ وہاں کے ممبران کا حق ہے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت کے حوالہ سے ایک اور سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ اس کی آئین میں گنجائش نہیں ہے، الیکشن کیلئے سیاسی اتحاد بننا سیاسی عمل کا حصہ ہے، ہم کارکردگی کی بنیاد پر انتخابات میں جائیں گے۔