این جی اوز کی رجسٹریشن اور ایجنسیوں کو قابل احتساب بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے، سینیٹر فرحت اللہ بابر

بدھ 3 جنوری 2018 23:00

این جی اوز کی رجسٹریشن اور ایجنسیوں کو قابل احتساب بنانے کے لئے قانون ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 03 جنوری2018ء)سینیٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کے اجلاس میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے مطالبہ کیا کہ این جی اوز کی رجسٹریشن اور ریاستی ایجنسیوں کو قابل احتساب بنانے کے لئے قانون سازی کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی کی تنظیموں کی رجسٹریشن کا کام سکیورٹی ایجنسیوں کو نہیں دینا چاہیے جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام اور وہ شہریوں سے زیادتیاں کرتی ہیں۔

بدھ کو اس اجلاس کی صدارت سینیٹر نسرین جلیل نے کی جبکہ سینیٹرز ستارہ ایاز، سحر کامران، مفتی عبدالستار، محسن لغاری، کریم خواجہ اور فرحت اللہ بابر نے اس میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو سکتی ہے کہ وہ این جی اوز جو غائب ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے کام کر رہی ہیںان کی قسمت ان ایجنسیوں کے حوالے کر دی جائے جن پر شہریوں کو زبردستی اغوا اورغائب کرنے کے الزامات ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ماضی میں ای اے ڈی بین الاقوامی این جی او کی رجسٹریشن کا کام کرتی تھیں لیکن اب وزارت داخلہ ایک کمیٹی کے ذریعے یہ کام دیکھتی ہے جس میں آئی ایس آئی بھی شامل ہے۔ اس کے نتیجے میں 100 بین الاقوامی این جی اوز نے رجسٹریشن کی درخواست دی ہے جن میں نصف سے زیادہ کو ملک میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ نئی پالیسی ساتویں رپورٹ پر منحصر ہے لیکن یہ رپورٹ کبھی منظر عام پر نہیں آئی۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس رپورٹ کو منظر عام پر لایا جائے۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہ ہم این جی اوز کی رجسٹریشن کے لئے مناسب قانون سازی چاہتے ہیں اسی طرح ہم ریاستی ایجنسیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے بھی قانون سازی چاہتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ پوری سینیٹ پر مشتمل کمیٹی نے اس مقصد کے لئے بنائے گئے بل کی توثیق کی تھی۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کمیٹی کی سفارشات کے متعلق وضاحت کرے اور بتائے کہ وہ ایجنسیوں کے لئے قانون سازی کرنے سے کیوں قاصر ہی انہوں نے کہا کہ پاکستان نے سول سوسائٹی تنظیموں کے بین الاقوامی کنونشن پر دستخط کئے ہیں اورمتنبہ کیا کہ اگر اپنے وعدے پر عملدرآمد نہیں کیا تو پاکستان کو نہایت شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت ایسی این جی اوزسے خوش ہے جو اسکول اور ہسپتال بنا کر حکومت کی ذمہ داری بانٹتی ہے اور یہاں تک کہ کالعدم تنظیموں کو بھی اسکول اور ہسپتال بنانے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کا کسی کو یقین نہیں ہے کہ دو روز پہلے جس تنظیم پر پابندی عائد کی گئی ہے اس پر من و عن عمل کیا جائے گا کیونکہ ایسے اعلانات ماضی میں بھی کئے گئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ سول سوسائٹی تنظیموں کی آواز دبانے اور متبادل خیالات کو روکنے کے لئے آئیڈیالوجی اور نیشنل سکیورٹی مفادات کا بہانہ بنایا جاتا ہے۔ بحث کے دوران انسانی حقوق کے متعلق جینوا میں ہونے والے ریویو کے متعلق سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پانچ سال قبل ہونے والے ریویو میں پاکستان نے متعدد سفارشات پر اتفاق کیا تھا۔ اس میں زبردستی رائج کئے جانے کے اقدامات کو جرم قرار دیا گیا تھا لیکن اس کے لئے وہ اقدامات نہیں کئے گئے۔

اسی طرح یہ دعویٰ کہ توہیں رسالت کے قوانین امتیازی نہیں اور اس قانون کے تحت کسی کو سزا نہیں دی گئی غلط بیانی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم یہ اعتراف کرلیں کہ توہین رسات کے قوانین پر انصاف سے عملدرآمد کرنے میں ریاست کو چیلنج درپیش ہیں اور ریاست اسے حل کرنے کے کوشش کر رہی ہے تو اس سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا۔ یہ دعویٰ کہ آزادی اظہار کے تحفظ کے لئے پاکستان پرعزم ہے حقائق کے منافی ہے اور ریاستی ایجنسیوں نے سائبر کرائم ایکٹ 2016ء کو نیشنل سکیورٹی کے نام پر مخالفت کی آواز کو دبانے کے لئے استعمال کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ وعدہ بھی کیا گیا تھا کہ متعدد قوانین جن میں سزائے موت کی سزا ہو سکتی ہے ، ان پر نظرثانی کی جائے گی لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں کیاگیا اور ابھی بھی پاکستان میں 27جرائم ایسے ہیں جن پر سزائے موت ہو سکتی ہے۔