وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس،

خطے اور خطے سے باہر پیدا ہونے والی سٹریٹجک صورتحال کا جائزہ لیا گیا،امریکی قیادت کی طرف سے دیئے گئے حالیہ بیانات کو مکمل طور پر ناقابل فہم قرار دیدیا، پاکستان کو افغانستان میں اجتماعی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا،نہ ہی اتحادیوں پر الزام تراشی سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے،تمام غیر منصفانہ الزامات کے باوجود پاکستان عجلت میں کوئی اقدام نہیں کرے گا،افغانستان میں افغانوں کے ذریعے امن عمل میں اپنا تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا،اہم امور پر مکمل اتفاق رائے

منگل 2 جنوری 2018 23:24

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس،
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 جنوری2018ء) قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی قیادت کے حالیہ بیانات پر گہری مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی قیادت کی طرف سے دیئے گئے حالیہ بیانات کو مکمل طور پر ناقابل فہم قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ نہ تو پاکستان کو افغانستان میں اجتماعی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی اتحادیوں پر الزام تراشی سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔

قومی سلامتی کمیٹی کا 17واں اجلاس وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت منگل کو یہاںمنعقد ہوا، جس میں خطے اور خطے سے باہر ابھرتی ہوئی سٹریٹجک صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف، وزیر داخلہ پروفیسر احسن اقبال، وزیر دفاع خرم دستگیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات، چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، چیف آف نیول سٹاف ایڈمرل ظفر محمود عباسی، پاک فضائیہ کے سربراہ ایئر چیف مارشل سہیل امان، وزیراعظم کے خزانہ و اقتصادی امور کے مشیر مفتاح اسماعیل، قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ، امریکہ میں پاکستان کے سفیر اعزاز احمد چوہدری اور اعلی سول و ملٹری حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

قومی سلامتی کمیٹی نے امریکی قیادت کی طرف سے دیئے جانے والے بعض حالیہ بیانات پر گہری مایوسی کا اظہار کیا۔ کمیٹی نے کہا کہ جنوبی ایشیاء کے بارے میں امریکی صدر ٹرمپ کی پالیسی کے اعلان کے بعد امریکی قیادت کے ساتھ قریبی روابط سے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے قیام کیلئے ایک دوسرے کا موقف بہتر طور پر سمجھنے کیلئے مفید ثابت ہوئے۔

امریکی وزراء ٹیلرسن اور میٹس کے دوروں کو بھی کمیٹی نے مثبت پیشرفت قرار دیا۔ کمیٹی نے کہا کہ اس مثبت پیشقدمی کے تناظر میں امریکی قیادت کی طرف سے دیئے گئے حالیہ بیانات مکمل طور پر ناقابل فہم ہیں کیونکہ یہ حقائق کے برخلاف ہیں اور ان بیانات نے دونوں قوموں کے مابین طویل عرصہ کے دوران قائم ہونے والے اعتماد کو متاثر کیا ہے اور ان سے پاکستانی قوم جس نے علاقائی اور عالمی امن اور سلامتی کیلئے نمایاں طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے، کی عشروں پر محیط قربانیوں کی نفی ہوتی ہے۔

اجلاس کے شرکاء نے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی دہشتگردی کے انسداد کیلئے مہم افغانستان میں موجود دہشتگرد تنظیموں کے عزائم کی ممکنہ توسیع کے خلاف ایک حفاظتی دیوار ثابت ہوئی ہے اور اس حقیقت کا امریکی حکام نے اعلی سطح پر اعتراف کیا، ان دہشتگردوں میں سے زیادہ تر نے پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کی موجودگی، کٹے پھٹے پاک افغان بارڈر اور افغانستان کے اندر ایسی سرزمین جس پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں، کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کے معصوم شہریوں کے خلاف سرحد پار حملے کئے ہیں۔

کمیٹی نے کہا کہ پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف جنگ بنیادی طور پر اپنے وسائل سے لڑی ہے اور پاکستان کی معیشت نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے،پاکستان نے اس جنگ میں بے بہا قربانیاں دی ہیں، اس جنگ میں پاکستان کے ہزاروں معصوم شہریوں اور جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،ان کے خاندانوں کی تکالیف کی بے رحمی سے مالی قیمت لگا کر توہین نہیں کی جا سکتی۔

کمیٹی نے مزید کہا کہ پاکستان آج بھی افغانستان میں امریکی قیادت میں بین الاقوامی کوششوں کے ساتھ بھرپور تعاون کر رہا ہے، پاکستان افغانستان میں بین الاقوامی اتحاد کی طرف سے کئے جانے والے انسداد دہشتگردی آپریشنز کیلئے اہم معلومات کی فراہمی کے ذریعے بھرپور سہولت مہیا کر رہا ہے،پاکستان کے انسداد دہشتگردی تعاون کی بدولت خطے سے القاعدہ کا خاتمہ ہو چکا ہے،پاکستان اپنے تعاون کی وجہ سے ظالمانہ ردعمل کا سامنا کر رہا ہے اور افغانستان میں موجود دہشتگردوں نے پاکستان میں سکول کے سینکڑوں بچوں کا بہیمانہ قتل کیا ہے۔

کمیٹی نے اپنی اس پختہ رائے کا اظہار کیا کہ افغانستان میں اصل چیلنجز اندرونی سیاسی محاذ آرائی، بڑے پیمانے پر کرپشن، منشیات کی پیداوار میں بے تحاشا اضافہ اور افغانستان کے اندر ایسے علاقوں کی توسیع ہے جن پر حکومت کی عملداری نہیں اور وہ ایک سے زیادہ بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں کی پناہ گاہیں ہیں،جن سے افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک اور پورے خطے کو سنگین اور براہ راست خطرہ لاحق ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ پاکستان کو افغانستان میں اجتماعی ناکامی کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا اور نہ ہی اتحادیوں پر الزام تراشی سے افغانستان اور خطے میں پائیدار امن کے مشترکہ مقاصد کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کمیٹی نے اس امر پر اتفاق کیا کہ تمام غیر منصفانہ الزامات کے باوجود پاکستان عجلت میں کوئی اقدام نہیں کرے گا اور نہ صرف اپنے عوام بلکہ خطے اور بین الاقوامی برادری کے امن و سلامتی کیلئے افغانوں کی قیادت میں اور افغانوں کے ذریعے امن عمل کے سلسلے میں اپنا تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔

کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستانی ایسی قوم ہیں جو اپنے قومی فخر کو عزیز جانتے ہیں اور اپنے وطن کا دفاع کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں،پاکستانیوں نے علاقائی امن اور استحکام کیلئے کام کرنے اور انسداد دہشتگردی کیلئے اپنے غیر معمولی عزم کا مظاہرہ کیا ہے۔