ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ ہمارے لیے باعث تشویش ہے،امریکہ کو افغانستان میں شکست اور ہزیمت کا سامنا ہے،اپنی ناکامی اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے،ہم یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جائے گی،وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان کی نجی ٹی وی چینل سے گفتگو

منگل 2 جنوری 2018 23:19

ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ ہمارے لیے باعث تشویش ہے،امریکہ کو افغانستان میں ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 02 جنوری2018ء) وزیر دفاع انجینئر خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کے اجلاس میں امریکی پالیسی پر غور کیا گیا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ ٹویٹ ہمارے لیے باعث تشویش ہے۔ منگل کو ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے وزراء کے بیانات میں واضح فرق ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ کو افغانستان میں شکست اور ہزیمت کا سامنا ہے اور وہ افغانستان میں اپنی اس ناکامی اور شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا چاہتا ہے لیکن ہم یہ بات پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان میں نہیں لڑی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد سے ہمارے بیانیے کو تقویت ملی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج نے کامیاب آپریشن ضرب عضب کے ذریعے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فورسز کی موجودگی کے باوجود 43 فیصد افغانستان پر دہشت گردوں کا قبضہ ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہون نے کہا کہ اتحادی ممالک کے ساتھ دھمکی آمیز لہجے میں بات کرنا مناسب نہیں، انہوں نے کہا کہ امریکہ جس رقم کی بات کرتا ہے وہ اس نے ہمیں خیرات میں نہیں دی بلکہ اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے دی، ہم نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ اپنے قبائلی علاقوں میں جو آپریشنز کیے وہ ان کی قیمت تھی، امریکا نے تو پاکستان کو کسی قسم کی کوئی امداد نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ امریکا کا بار بار یہ اصرار کرنا کہ ہم نے پاکستان کو اتنے بلین ڈالرز دئیے جبکہ پاکستان کا اس سے کم از کم 5 گنا زیادہ معاشی نقصان ہوا ہے، ہمارے ہزاروں فوجی شہید ہوئے ہیں جبکہ ہزاروں عام شہری بھی شہید ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ 16 سال سے امریکا کو گرائونڈ لائنز آف کمیونیکیشن فری آف کاسٹ دی ہیں، ائیر لائن آف کمیونیکیشن فری آف کاسٹ دی ہیں جبکہ پرویز مشرف کے دور میں انہیں ائیر بیس بھی دئیے گئے لیکن امریکہ نے اس کے بدلے ہم پر صرف الزامات لگائے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ گزشتہ 3 سال میں اس فوجی امداد میں بھی کافی کمی آئی ہے اور ویسے بھی اب ہم خود انحصاری کی طرف جا رہے ہیں جبکہ روس کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد پر ایک باڑ لگا رہے ہیں اور ہم ابھی بھی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی سے گریز کرے گا کیونکہ اس کے مضمرات کسی بھی طرح نہ تو افغانستان، نہ ہی امریکا اور نہ ہی پاکستان کے لیے مثبت ہیں۔

خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ نئے سال کے آغاز پر ایک ٹویٹ کر دینے سے خطے کے معاملات درست ہو سکتے ہوتے تو شائید گزشتہ 16 سال میں اب تک ہو چکے ہوتے اور یہ نہیں ہوئے کیونکہ بنیادی معاملات ہیں جسے امریکا سمجھ ہی نہیں پا رہا، ہمیں امریکہ کو یہ بھی باور کرانا ہے، امریکہ دہشتگردی کے خلاف ہماری کامیابیاں تسلیم کرے۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بھی تو ایسی پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے پاکستان پر حملے ہو رہے ہیں اور پاکستانی فوجیوں اور عام شہریوں کو یہ دہشت گرد قتل کر رہے ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم محمد نواز شریف عوامی حاکمیت کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور انہوں نے بذات خود محمد شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے امیدوار کے لیے نامزد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنا لائحہ عمل دے چکے ہیں کہ افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر نہیں لڑی جائے گی اور نہ ہی ہم اس کی اجازت دیں گے اور دوسرا یہ کہ پاکستان میں اب کسی بھی دہشت گرد کی کوئی محفوظ پناہ گاہ موجود نہیں۔

خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آپریشن ضرب عضب کے ذریعے اپنی سر زمین سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے اور دہشت گردوں کی جوکچھ باقیات ہیں ان کا بھی آپریشن ردالفساد کے ذریعے خاتمہ یقینی بنایا جا رہا ہے اور یہ پالیسی ہم امریکا کو واضح بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستانی سرزمین کے دفاع کے لیے مکمل تیار ہیں اور اپنے مادر وطن کے دفاع کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا اور امریکا کو افغانستان کی جنگ پاکستان کی سرزمین پر لڑنے کی اجازت بھی نہیں دی جائے گی۔