ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس قوم کو نکالنے کا حدف ہے،مولانا فضل الرحمن

ایک جماعت کی جانب سے علماء کو تنخواہ کی لالچ دراصل گڑ میں زہر ملا کر دینے کے مترادف ہے،باطل نظریات پر قائم جماعت کا کوئی جزوی درست فیصلہ اس کے باطل نظریات کو درست ثابت نہیں کرسکتا ہے،تقریب سے خطاب

پیر 1 جنوری 2018 22:00

ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 01 جنوری2018ء) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس قوم کو نکالنے کا حدف ہے۔ایک جماعت کی جانب سے علماء کو تنخواہ کی لالچ دراصل گڑ میں زہر ملا کر دینے کے مترادف ہے۔باطل نظریات پر قائم جماعت کا کوئی جزوی درست فیصلہ اس کے باطل نظریات کو درست ثابت نہیں کرسکتا ہے۔

کسی بھی ریاست کے استحکام کی اصل بنیاد امن اور معیشت کی بہتری ہے۔ہم آج نہیں مسائل سے دوچار ہیں کہیں یہ مشکلات اللہ تعالیٰ کے احکام اور رسولﷺ کی سیرت طیبہ کی نافرمانی کا نتیجہ تو نہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے رات گئے جامعہ صفہ بلدیہ ٹاؤن میں دارلحدیث کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر سینیٹ کے ڈپٹی چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری،جمعیت علماء اسلام کے رہنماء مولانا راشد محمود سومرو، قاری محمد عثمان ،سابق رکن سندھ اسمبلی مولانا عمر صادق،حافظ محمد نعیم ، جامعہ صفہ کے مہتمم مولانا قاری حق نواز، نائب مہتمم اور معروف مذہبی اسکالر مفتی محمد زبیر ، مفتی محمد شعیب اور دیگر علماء کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

مولانا فضل الرحمن نے جامعہ صفہ کے جدید درالحدیث میں علماء طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب قر آن و حدیث کا علم حاصل کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی جانب سے سکینہ اور اطمینان حاصل ہوتا ہے جو متضاد ہے اضطراب اور عدم اطمینان کا۔قرآنی احکام کے مطابق وحی کی رہنمائی نہ ہوتو عقل اندھی ہوتی یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے خلاف اغیار کے کئی عقل پر مبنی تیار منصوبے ناکام ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام مسائل کا ذمہ دار صرف حکمرانوں اور ذمہ داروں کو قرار دینا مناسب نہیں۔فرد کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ مسلمان روحانی طور پر ایک قبیلہ ہے جس کی کوئی جغرافیہ حد بندی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ قومییت کا تصور قرآنی احکام کے خلاف نہیں مگر جب اس میں مادیت پرستی اور عصبیت کا عنصر شامل ہوجائے اور روحانیت کو پسے پشت ڈالا جائے تو پھر یہ غلط اور قرآنی اصولی کے خلاف ہے۔

انہوں نے کہا کہ مدارس کے حوالے سے دنیا بھر میں پروپگنڈہ کیا جارہا ہے حالانکہ مدارس میں علماء نسل انسانی کی تربیت کرتے ہیں ور بقاء انسانیت کی تعلیم دیتے ہیں شاید اغیار کو یہی اداپسند نہیں ہے اسی لئے پوری دنیا حکومتیں مدارس کے خلاف پورپگنڈہ میں شریک اور اہل مدارس سے بے زار نظر آتی ہیں۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ نے کہا کہ کسی بھی ریاست کے استحکام اور بقاء کے لئے امن اور معیشت کی بہتری سب سے پہلی بنیاد ہے۔

آج ہم جس بے روز گاری بد امنی اور خلفشار کا شکار ہیں کہیں اللہ تعالیٰ کی نعمیتوں سے انکار کا نتیجہ تو نہیں۔کسی بھی اسلامی ریاست میں شریعت کے متصادم کوئی قانون نہیں بن سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر کسی جماعت کی بنیاد جامع اور اسلامی نظریہ کی بنیاد پر ہو اگر اس سے غیر دانستہ جزوی کوتاہی ہو بھی جائے تو اس کی اصلاح کی گنجائش ہے لیکن جس جماعت کی بنیاد باطل نظریے پر قائم ہو اس کا جزوی درست اقدام بھی باطل کے فروغ اور معاون ثابت ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علماء اسلام نے ہمیشہ اہل مذہب ،مدارس ،مساجد کی جنگ لڑی ہے مگر کچھ لوگ آج سرکاری تنخواہ کے نام پر علماء کو دست وگریباں اور اکابر سے بد ظن کرنا چاہتے ہیں ان کا یہ عمل گڑ میں زہر ملا کر پینے کے مترادف ہے۔اس جماعت کا مدارس کو تباہ کرنے کے لئے علماء کو تنخواہ دینے کے پروپگنڈہ میں مصروف ہیں علماء اس سے خود کو بچائیں۔

مولانا فضل الرحمن نے ایم ایم اے کی بحالی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب قوموں اور ملکوں پر مشکل آتی ہے تو اجتماعی جدو جہد ہی قوموں اور ممالک کو مشکلات سے نکال سکتی ہے۔ جب کسی محلے میں کوئی آگ لگ جاتی ہے تو یہ نہیں دیکھا جاتا ہے کہ یہ گھر کس کا ہے بلکہ سب ملکر اس آگ کو بجھاتے ہیں۔ ایم ایم اے کی بحالی بھی پاکستان کے اندر مختلف مسائل ا ور انتشار سے اس قوم کو نکالنے کا حدف ہے۔#

متعلقہ عنوان :