پی ایچ اے کے ساتھ 8500 اپارٹمنٹس کی تعمیر کے معاہدے پر عمل نہ ہونے پر میسرز معمار ہائوسنگ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈکے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے ، قائمہ کمیٹی کی سفارش

8 سال بعد میسرز معمار کی طرف سے الاٹیز کو ان کی جمع شدہ رقم واپس دینے کا کہا جا رہا ہے جو کہ ناانصافی ہے تمام معاملات کی انکوائری کی جائے اور آڈٹ رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے،کراچی میں بغیر منصوبہ بندی کے بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں ، یہاں کا بنیادی مسئلہ پانی کی عدم فراہمی ہے ، میاں عبدالمنان

پیر 1 جنوری 2018 16:21

پی ایچ اے کے ساتھ 8500 اپارٹمنٹس کی تعمیر کے معاہدے پر عمل نہ ہونے پر میسرز ..
کراچی ۔ یکم جنوری (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 جنوری2018ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے ہائوسنگ اینڈ ورکس کے چیئرمین میاں عبدالمنان نے کہا ہے کہ پاکستان ہائوسنگ اتھارٹی (پی ایچ ای) اور میسرز معمار ہائوسنگ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے مابین 2009ء میں کئے گئے معاہدے پر تاحال عمل نہ ہونے پر میسرز معمار ہائوسنگ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈکے خلاف الاٹیوں کو حق دلوانے کے لئے نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے، کراچی کے شہریوں کو بنیادی سہولیات نہ ملنے پر تشویش ہے، شہر میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں جس کی وجہ سے شہر میں سیوریج اور فراہمی آب کا مسئلہ سنگین ہوگیا ہے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز چیف سیکریٹری سندھ کے آفس میں اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

میاں عبدالمنان نے کہا کہ پی ایچ اے اور میسرز معمار ہائوسنگ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے درمیان 8500 اپارٹمنٹس کی تعمیر کے سلسلے میں 15 جولائی 2009ء کو مشترکہ منصوبے پر معاہدہ طے پایا جس کے تحت 50 فیصد کوٹہ جنرل پبلک اور 50 فیصد وفاقی سرکاری ملازمین کے لئے مختص کیا گیا۔

معاہدے کے تحت زمین اور تکنیکی معاملات کی ذمہ داری میسرز معمار کی تھی اور دونوں فریقین نے مل کر پراجیکٹ کے معاملات چلانے کے لئے ایک مشترکہ منصوبہ کمپنی بنائی تھی، مگر اب 8 سال بعد میسرز معمار کی طرف سے الاٹیز کو ان کی جمع شدہ رقم واپس دینے کا کہا جا رہا ہے جو کہ ناانصافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیٹی سفارش کرتی ہے کہ ان منصوبوں کو جاری رہنا چاہئے اور الاٹیز کو ان کے حقوق ملنے چاہئیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میسرز معمار اپنے معاہدے پر پورا نہیں اترا جس کی بنیاد پر اس کے خلاف اسلام آباد نیب میں ریفرنس دائر کیا جائے اور تمام معاملات کی انکوائری کی جائے اور آڈٹ رپورٹ کمیٹی کو پیش کی جائے۔ میاں عبدالمنان نے کہا کہ کراچی میں بغیر منصوبہ بندی کے بلند و بالا عمارتوں کی تعمیر سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور یہاں کا بنیادی مسئلہ پانی کی عدم فراہمی ہے اور ٹینکر مافیا سرگرم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کراچی کے شہری بنیادی سہولتوں بشمول پانی کو ترس رہے ہیں جبکہ کراچی کے مقابلے میں ایک نیا شہر بحریہ ٹائون بڑی تیزی سے تعمیر ہو رہا ہے، ہمیں بتایا جائے کہ بحریہ ٹائون کو اتنی بڑی تعمیرات کے لئے پانی کی فراہمی کس قانون کے تحت کی جا رہی ہے اور کہاں سے اتنا پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں پانی کے بعد سب سے بڑا مسئلہ سیوریج کا ہے، 1985ء کے بعد شہر میں کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا گیا۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے کہا کہ یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ بغیر قانونی دستاویزات کے اربوں روپے کی سرکاری زمین پر عدالتی اسٹے آرڈر کیسے مل رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کارلٹن ہوٹل پر قبضہ واگذار کرا کے خالی پلاٹ پر مفاد عامہ کے لئے کوئی منصوبہ شروع کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی ہائوسنگ اسکیموں کے اطراف تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے اور اس حوالے سے صوبائی حکومت بھرپور تعاون کو یقینی بنائے۔

اس موقع پر وفاقی وزیر ہائوسنگ اینڈ ورکس اکرم خان درانی نے بتایا کہ 5 ستمبر 2009ء کو پی ایچ اے اور میسرز ہائوسنگ سروسز پرائیوٹ لمیٹڈ کے درمیان پراجیکٹ کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم نے کیا اور پراجیکٹ کی پیشکش عوام الناس اور سرکاری ملازمین کے لئے کی گئی۔ اس سلسلے میں درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ 30 اکتوبر 2009ء تھی اور الاٹیز کو مخصوص اپارٹمنٹس مختص کرنے کے لئے قرعہ اندازی 5 نومبر 2009ء کو تھی جس کو مزید 45 دنوں کے لئے بڑھا دیا گیا تھا۔

پراجیکٹ پر فلیٹ کی بکنگ کے حوالے سے مجموعی طور پر 495 درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے 365 درخواست گذاروں نے پہلی ڈائون پیمنٹ جمع کروائی اور باقی ماندہ اقساط بتدریج جمع نہ کروانے کی وجہ سے منصوبے پر کام ابتداء میں 7 ٹاورز کی تعمیر ہونا تھی لیکن الاٹیز کی عدم دلچسپی کی وجہ سے صرف 2 ٹاورز کا تعمیراتی کام شروع کیا گیا، اس سلسلے میں تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا، بشمول یہ کہ اپارٹمنٹس کی پیشکش فائونڈیشنز کو بھی کی جائے مگر پراجیکٹ کو جاری رکھنے کے لئے کوئی بھی پختہ تجویز یا حکمت عملی طے نہیں ہو سکی۔

انہوں نے تجویز پیش کی کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس بلایا جائے جس میں میسرز معمار، کارلٹن ہوٹل پلاٹ کراچی میں وفاقی ہائوسنگ سوسائٹیز میں تجاوزات کے خاتمے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل تیار کر کے تجاویز وزیراعظم کو پیش کی جائیں تاکہ اس پر عمل درآمد ہو سکے۔ اجلاس میں اراکین قومی اسمبلی انجینئر محمد عثمان بادینی، اقبال علی خان، ساجد نواز، شاہدہ رحمانی، نگہت پروین میر، خالدہ منصور، سردار غلام سرور خان اور وزارت ہائوسنگ کے اعلیٰ افسران موجود تھے۔

متعلقہ عنوان :