سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیخلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دے دیں ،ْ

نواز شریف اور الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس پارلیمنٹ قانون سازی کاسب سے بڑا ادارہ ہے ،ْ چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس عدالت فریقین کونوٹس جاری کرے ،ْ شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم کی استدعا آپ پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کررہے ہیں ،ْہمیں قانون کے مطابق چلنا ہے ،ْ چیف جسٹس کا جواب بتائیں کن مقدمات میں آج تک عدالتوں نے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو کالعدم کیا چیف جسٹس کا وکیل سے سوال پارٹی سربراہ ہی پارلیمان میں موجود ممبران کو کنٹرول کرتا ہے ،ْ پارٹی سربراہ کا صادق اورامین ہونا ضروری ہے ،ْ فروغ نسیم نیشنل پارٹی کی انتخابی اصلاحات ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا …قوانین کالعدم قرار دینے والے عدالتی فیصلوں کی نظیر بتائیں ،ْ چیف جسٹس کا استفسار

پیر 1 جنوری 2018 15:02

سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کیخلاف درخواستیں قابل سماعت قرار ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جنوری2018ء) سپریم کورٹ نے انتخابی اصلاحات ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (ن)کے صدر ،ْ سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف اور الیکشن کمیشن سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں جبکہ چیف جسٹس ،ْجسٹس ثاقب نثار نے سابق وزیر اعظم نوازشریف کے پارٹی صدر بننے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ پارلیمنٹ قانون سازی کاسب سے بڑا ادارہ ہے۔

پیر کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 3 رکنی بنچ نواز شریف کے پارٹی صدر بننے کے خلاف دائر عمران خان ،ْ شیخ رشید سمیت 13درخواستوں کی سماعت کی ۔سماعت شروع ہوئی عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم نے اپیل کی کہ عدالت فریقین کونوٹس جاری کرے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور آپ اس کے بنائے قوانین کوکالعدم قرار دینے کی استدعا کررہے ہیں ،ْہمیں قانون کے مطابق چلنا ہے،عدالتوں کو اتنا آسان نہ لیں، نوٹس کا کیس بنائیں گے تو نوٹس بھی کریں گے ،ْبتائیں کن مقدمات میں آج تک عدالتوں نے پارلیمنٹ کے بنائے قوانین کو کالعدم کیا، وکلاء عدالتی فیصلوں کی نظیریں پیش کریں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قانون بنانے کیلئے پارلیمان سپریم ادارہ ہے ،ْہم پارلیمان کے قانون بنانے کے اختیار میں مداخلت نہیں کر سکتے ،ْبنیادی حقوق اور عوامی مفاد ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں ،ْپارلیمان کے قانون کا جائزہ اسی وقت لیا جا سکتا ہے جب وہ بنیادی حقوق سے متصادم ہو، ہمیں مقدمے میں آئینی شقوں سے متصادم معاملات کو دیکھنا ہے۔

عوامی مسلم لیگ شیخ رشید کے وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل میں پاناما فیصلے میں جسٹس اعجاز الاحسن کی آبزرویشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایماندار آدمی کی مجھ پر حکومت میرا بنیادی حق ہے، آئین کے آرٹیکل 63 اے میں واضح ہے کہ پارٹی سربراہ پارلیمانی ممبران کو ٹکٹ جاری کرے گا، اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پارٹی سربراہ ہی پارلیمان میں موجود ممبران کو کنٹرول کرتا ہے اور پارٹی سربراہ کا صادق اورامین ہونا ضروری ہے۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ ہم نااہلی کا لفظ استعمال کرنے میں احتیاط سے کام لے رہے ہیں ،ْ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں اگر کسی شخص کی پارلیمنٹ سے رکنیت ختم ہو جائے تو گورننس کا حقدار نہیں ،ْآپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نااہل شخص کا پارٹی سربراہ بننا آرٹیکل 9 کی خلاف ورزی ہے ،ْجسٹس اعجاز الاحسن نے بیرسٹر فروغ نسیم سے استفسار کیا کہ پارٹی سربراہ کے سرٹیفکیٹ پر رکن اسمبلی نکالا جا سکتا ہے ،ْ پارٹی سربراہی کے تحت حاصل اختیارات سے متعلق مزید بتائیں جس پر بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ نواز شریف کا پارٹی سربراہ بننا ان کا ذاتی مقدمہ ہے لیکن جو شخص رکن اسمبلی نہ بن سکے لیکن وہ پارٹی کنٹرول کرے تو ایسا اصولوں کے خلاف ہو گا۔

نواز شریف کا پارٹی سربراہ بننا باز محمد کاکڑ کیس میں عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے۔ باز محمد کاکڑ کیس میں عدالتی حکم کو ختم کرنے کیلئے قانون سازی کی گئی۔دوران سماعت نیشنل پارٹی کی جانب سے انتخابی اصلاحات ایکٹ کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کی سپریم باڈی ہے اور آپ کہتے ہیں پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آج تک سپریم کورٹ نے کتنے قوانین کو کالعدم قرار دیا ،ْقوانین کالعدم قرار دینے والے عدالتی فیصلوں کی نظیر بتائیں جس پر ایڈووکیٹ حشمت حبیب نے کہا کہ عدالتی نظیریں پیش کرنے کیلئے وقت دیا جائے۔وکیل نے عدالت کو بتایا کہ گزشتہ رات شہر سے باہر تھا اس لئے تیاری کیلئے وقت دیا جائے جس پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ عدالت کو آسان نہ لیں ،ْ کیس مقرر تھا آپ کو تیاری کر کے آنا چاہیے تھا، بغیر تیاری کے کیس میں دلائل دینا بڑے وکیل کے شایان شان نہیں ،ْہم نے سختی کے ساتھ قانون پر عمل کرنا ہے اور مقدمے کو آج ہی دوبارہ اس کے نمبر پر سنیں گے۔

دوران سماعت بیرسٹر فروغ نسیم نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ سینیٹ نے اس قانون کے خلاف 52ووٹ سے قرارداد منظور کی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسا ہے تو پارلیمنٹ خود اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دے دیتی چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ فروغ نسیم صاحب اس قانون کا تاریخی پس منظر بتائیں 2017میں یہ قانون تمام جماعتوں کے ووٹوں سے پاس ہوا۔بیرسٹر فروغ نسیم کے دلائل کے بعد چیف جسٹس نے مختصر حکم لکھواتے ہوئے درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر سماعت کیلئے منظور کرلیں اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نوازشریف اورالیکشن کمیشن سمیت دیگر فریقین کو 23 جنوری کے لیے نوٹس جاری کردیئے۔

یاد رہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چند ماہ قبل پارلیمنٹ سے انتخابی اصلاحات کا بل منظور کرایا جس کے تحت عدالت سے نااہل شخص کو پارٹی سربراہ بنانے کیلئے ترمیم کی گئی تھی اور سینیٹ میں بل ایک ووٹ کے فرق سے منظور ہوا جس کے بعد نوازشریف مسلم لیگ (ن) کے باضابطہ صدر منتخب ہوئے۔ان درخواستوں میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی پاناما کیس میں نااہلی کے بعد پارٹی صدارت سنبھالنے کی اہلیت کو چیلنج کیا گیا ۔