ایران میں جاری بد امنی ایک بڑی تحریک کا نقطہ آغاز ہے‘ شیریں عبادی

ْیہ تحریک 2009ء میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے بھی زیادہ دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے ابتر اقتصادی صورت حال اور امیرو غریب میں بڑھتا ہوا فرق احتجاجی مظاہروں کی جڑ بنیاد ہے‘انٹرویو

پیر 1 جنوری 2018 12:52

لندن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 01 جنوری2018ء) ایران کی نوبل امن انعام یافتہ وکیل شیریں عبادی نے کہا ہے کہ ملک میں جاری بد امنی ایک بڑی تحریک کا نقطہ آغاز ہے اور یہ تحریک 2009ء میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں سے بھی زیادہ دور رس نتائج کی حامل ہو سکتی ہے۔انھوں نے اطالوی اخبار لا ری پبلکا سے ایک انٹرویو میں کہا کہ میرے خیال میں یہ مظاہرے بہت جلد ختم ہونے کے نہیں۔

یہ ایک بڑی احتجاجی تحریک کا آغاز ہیں اور یہ 2009ء کی سبز تحریک سے بھی کہیں بڑھ کر ہوسکتے ہیں۔ایرا ن میں اتوار کو مسلسل تیسری شب حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور ان میں مختلف اطلاعات کے مطابق چار افراد مارے جاچکے ہیں ، دسیوں کا گرفتار کر لیا گیا ہے اور سرکاری عمارتوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔

(جاری ہے)

ان مظاہروں کو 2009ء میں سابق صدر محمود احمدی نڑاد کے دوبارہ انتخاب کے خلاف برپا شدہ سبز تحریک کے دوران میں احتجاجی ریلیوں سے بھی بڑا خیال کیا جارہا ہے۔

تب ہزاروں ایرانیوں نے سڑکوں پر نکل کر صدارتی انتخابات کے نتائج میں مبینہ بدعنوانیوں دھاندلیوں کے خلاف سخت احتجاج کیا تھا لیکن ان کی تحریک کو سکیورٹی فورسز کے ذریعیسختی سے دبا دیا گیا تھا۔لیکن لندن میں مقیم شیریں عبادی کا کہنا ہے کہ اب عوامی غیظ وغضب کی جڑیں تمام تر اقتصادی اور سماجی مسائل میں پیوست ہیں۔ ایران میں یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے اور وہاں ایک سنگین اقتصادی بحران درپیش ہے۔

پورے ملک میں کرپشن انتہا ئی سطح تک پہنچ چکی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ایران کے 2015ء میں امریکا اور یورپ کے ساتھ طے شدہ جوہری معاہدے کے نتیجے میں پابندیوں کے خاتمے کے بعد بھی آبادی کو کچھ فائدہ نہیں ہوا حالانکہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پابندیوں کے خاتمے سے ایرانیوں کے حالات میں بہتری آئے گی۔اس پر مستزاد یہ حقیقت ہے کہ ایران بہت زیادہ فوجی اخراجات کررہا ہے۔

لوگ بھاری فوجی اخراجات کے حق میں نہیں ہیں اور اس صورت حال میں نوجوان سب سے زیادہ مایوس ہوئے ہیں۔شیریں عبادی کا مزید کہنا تھا اور وہ ملک میں بے روز گاری کی بلند شرح ، بدعنوانیوں اور سنسر شپ کے ماحول کا حوالہ دے رہی تھیں۔2003ء میں نوبل امن انعام پانے والی ایرانی خاتون کا کہنا تھا کہ ابتر اقتصادی صورت حال اور امیر اور غریب کے درمیان بڑھتا ہوا فرق ہی دو ایسے عوامل ہیں جو دراصل ان احتجاجی مظاہروں کی جڑ ، بنیاد ہیں۔

متعلقہ عنوان :