حزب اللہ کا منشیات نیٹ ورک ، اوباما انتظامیہ کو تحقیقات کا سامنا

ہتھیاروں اور منشیات کی تجارت سے متعلق لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے نیٹ ورک کے خلاف امریکی انسداد منشیات کے ادارے کی کارروائیوں کو روک دینے کے حوالے سے سابق اوباما انتظامیہ کے کردار کی تحقیق کرائی جائے امریکی ایوانِ نمائندگان کی خصوصی کمیٹی کے دو سینئر ارکان کا اٹارنی جنرل کو بھیجے گئے خط میں مطالبہ

ہفتہ 23 دسمبر 2017 14:43

واشنگٹن (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 23 دسمبر2017ء) امریکا میں ایوانِ نمائندگان کی ایک خصوصی کمیٹی کے دو سینئر ارکان نے اٹارنی جنرل کو بھیجے گئے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ ہتھیاروں اور منشیات کی تجارت سے متعلق لبنانی ملیشیا حزب اللہ کے نیٹ ورک کے خلاف امریکی انسداد منشیات کے ادارے کی کارروائیوں کو روک دینے کے حوالے سے سابق اوباما انتظامیہ کے کردار کی تحقیق کرائی جائے۔

یہ مطالبہ ایک امریکی رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اوباما انتظامیہ نے ایرانی جوہری معاہدے میں کامیاب ہونے کے واسطے لبنانی تنظیم حزب اللہ کے مجرمانہ نیٹ ورک کے حوالے سے انسدادِ منشیات کے امریکی ادارے کی تحقیقات کو روک دیا تھا۔ اس کے نتیجے میں حزب اللہ کو منشیات کی تجارت سے اربوں ڈالر حاصل کرنے کا موقع ملا اور یہ رقم اس نے ہتھیاروں کے خریدنے اور دہشت گرد کارروائیوں کی سپورٹ میں استعمال کی۔

(جاری ہے)

امریکی جریدے "پولیٹیکو" میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اوباما انتظامیہ کے ذمہ داروں نے ڈرگ انفورسمنٹ ایجنسی ( ڈی ای ای) کی تحقیات میں رکاوٹ ڈالی۔ یہ تحقیقات "پراجیکٹ کسندرا" کے نام سے 2008 سے جاری تھیں اور توقع تھی کہ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے جو کارکنان کوکین اور ہتھیاروں کی اسمگلنگ اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہیں، انہیں گرفتار کر کے سزا دلائی جاسکے گی۔

تحقیقات میں 30 امریکی اور غیر ملکی سکیورٹی ایجنسیوں کی بھی حمایت حاصل رہی تھی۔اوہایو اور فلوریڈا ریاست سے تعلق رکھنے والے دو ارکان پارلیمنٹ جِم جورڈن اور رون ڈیسینٹس نے امریکی اٹارنی جنرل جیف سیشنز کے نام اپنے خط میں کہا ہے کہ "انسدادِ منشیات کے امریکی ادارے نے کسندرا کے نام سے حزب اللہ کے اس نیٹ ورک کا تعاقب شروع کیا تھا جو کوکین کی ایک بڑی مقدار امریکا اور یورپ منتقل کرنے کا ذمے دار تھا۔

تاہم منصوبے میں شریک امریکی اہل کاروں نے اوباما انتظامیہ پر الزام عائد کیا کہ اس نے حزب اللہ کے خلاف مذکورہ کوششوں کو روک دیا۔ امریکی اہل کاروں کے مطابق اوباما انتظامیہ کے اس اقدام کا مقصد ایرانی جوہری معاہدے پر منفی اثرات کو روکنا تھا۔اٹارنی جنرل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اس حوالے سے تفصیلی بریفنگ کے لیے 8 جنوری تک ایوانِ نمائندگان کو متعلقہ دستاویزات فراہم کی جائیں۔

پیر کے روز العربیہ ڈاٹ نیٹ کی جانب سے شائع کردہ "پولیٹیکو" جریدے کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ حزب اللہ کی جانب سے کوکین کی اس کھیپ کا پتہ چلا لیا گیا تھا جس کو جنوبی امریکا سے افریقہ ، یورپ اور مشرق وسطی اور اس کے علاوہ وینزویلا اور میکسیکو سے امریکا منتقل کیا جانا تھا۔ تاہم 8 برس کی تحقیقات کے بعد فیصلہ کن نکتے پر پہنچنے کے بعد اوباما انتظامیہ کے ذمہ داروں نے تحقیقات روک دیں۔

واضح رہے کہ 2009 میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے والے باراک اوباما نے عالمِ اسلام کے ساتھ وسیع تر قریب کے سلسلے میں ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کا وعدہ کیا تھا۔اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا یہ باور کرایا تھا کہ بش انتظامیہ کی جانب سے ایران کے غیر قانونی جوہری پروگرام کو روکنے کے لیے تہران پر دبا کی پالیسی "ناکام" رہی۔ وہائٹ ہاس میں اوباما انتظامیہ کے انسداد دہشت گردی کے مشیر جان برینن نے جو 2013 میں امریکی سراغ رساں ایجنسی CIA کے سربراہ بھی بنے، انہوں نے کہا کہ "آئندہ صدر کے پاس موقع ہے کہ وہ نہ صرف تہران کے ساتھ براہ راست بات چیت سے بلکہ حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی نظام میں ضم کر کے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی ایک نئی راہ استوار کریں۔

متعلقہ عنوان :