سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کیخلاف عدالتی حکم پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت ،وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے پیش کرنے کا حکم

توہین رسالت بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے، جھوٹا الزام لگانے والا دہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی

جمعہ 22 دسمبر 2017 20:15

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 دسمبر2017ء) سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف عدالتی حکم پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ توہین رسالت بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے ،جھوٹا الزام لگانے والا دہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔ جمعہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی سربراہی میں بینچ نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف عدالتی حکم پر عمل درآمد سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

ایف آئی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ بیرون ملک فرار 4 ملزمان کو واپس لانے کیلئے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے، گرفتار ملزمان سے تفتیش مکمل کرلی گئی اور اب ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کیا جائے گا۔

(جاری ہے)

عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے پیش کرنے کا حکم دیا۔ ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن میں جن 5 افراد پر الزام لگایا گیا ان کے خلاف شواہد نہیں ملے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے، توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے، ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی پرورش دو اسلامی ملک کررہے ہیں، منفی رجحانات میں پاکستان پہلے نمبر پر جارہا ہے، پی ٹی اے حکام نے کہا کہ ویب انالیسز ونگ روزانہ رپورٹنگ اور بلاکنگ کررہا ہے، ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، مناسب سہولیات کا فقدان ہے تاہم کام جاری ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ٹی وی چینلز پبلک سروس میسیج کیوں نہیں چلاتے، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صحافیوں سے استفسار کیا کہ بتائیں جھوٹی خبر دینے کی کیا سزا ہے جب کہ توہین رسالت بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے۔عدالت نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو تمام وسائل فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ منفی رجحانات میں پاکستان پہلے نمبر پر جارہا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صحافیوں سے سوال کیا کہ بتائیں جھوٹی خبر دینے کی کیا سزا ہی علاوہ ازیں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پاکستان الیکٹرانک کرائم بل کا ترمیمی مسودہ عدالت میں پیش کیا اور بتایا کہ توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد بھی نئے قانون میں شامل ہیں۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بیرسٹر ظفر اللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے متفقہ طور پر مسودے کی منظوری دی ہے۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ترمیمی مسودہ 26 دسمبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔بعد ازاں عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور این جی اوز کے خلاف فیصلے سے اب تک ہونے والی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی۔اس موقع پر پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا کہ ویب انالیسز ونگ روزانہ رپورٹنگ اور بلاکنگ کررہا ہے۔

سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم 15 تفتیشی افسران اور 12 ہزار شکایات ہیں جبکہ مناسب سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔بعد ازاں عدالت عالیہ نے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق قانون سازی اور کارروائی کی تفصیلات طلب کیں اور 26 جنوری تک پیمرا، ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور وزارت داخلہ کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔