توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانا دوہرا جرم ہے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ‘گرفتار بلاگرزپر الزامات ثابت نہیں ہوسکے-ایف آئی اے

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 22 دسمبر 2017 16:09

توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانا دوہرا جرم ہے‘ اسلام آباد ہائی کورٹ‘گرفتار ..
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 دسمبر۔2017ء) اسلام آباد ہائی کورٹ نے قراردیاہے کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوا ہے جبکہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے اور سپیشل سیکرٹری داخلہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔سماعت کے دوران ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے نے بیرون ملک فرار ہونے والے 4 ملزمان کو واپس لانے کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرلیا ہے۔ایف آئی اے نے کہا کہ4 گرفتار ملزمان سے تفتیش مکمل کرلی گئی ہے اور ٹرائل کورٹ میں چالان پیش کردیا گیا ہے جبکہ پٹیشن میں جن 5 افراد پر الزام لگایا گیا تھا ان کے خلاف شواہد نہیں ملے۔

(جاری ہے)

جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ جن کے خلاف شواہد نہیں ملے ان کے خلاف کارروائی نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانے والا دوہرے جرم کا مرتکب ہوتا ہے۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے گی کہ الزام لگانے والا جھوٹا ہے یا شواہد ناکافی ہیں۔عدالت نے ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو تمام وسائل فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ منفی رجحانات میں پاکستان پہلے نمبر پر جارہا ہے۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ٹی وی چینلز پبلک سروس مسیج کیوں نہیں چلاتے، ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے چینلز کے اشتہارات بند کردیں۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صحافیوں سے سوال کیا کہ بتائیں جھوٹی خبر دینے کی کیا سزا ہے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے پاکستان الیکٹرانک کرائم بل کا ترمیمی مسودہ عدالت میں پیش کیا اور بتایا کہ توہین آمیز اور غیر اخلاقی مواد بھی نئے قانون میں شامل ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بیرسٹر ظفر اللہ کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے متفقہ طور پر مسودے کی منظوری دی ہے۔ڈپٹی اٹارنی جنرل بتایا کہ ترمیمی مسودہ 26 دسمبر کو ہونے والے کابینہ اجلاس کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ عدالت نے وزارت داخلہ، ایف آئی اے اور پی ٹی اے کو مل کر ورکنگ پیپر تیار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا اور این جی اوز کے خلاف فیصلے سے اب تک ہونے والی کارروائی کی رپورٹ بھی طلب کی۔

عدالت میں پی ٹی اے نے موقف اختیار کیا کہ ویب انالیسز ونگ روزانہ رپورٹنگ اور بلاکنگ کررہا ہے۔سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا تھا کہ توہین آمیز مواد روکنے اور کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں، تاہم 15 تفتیشی افسران اور 12 ہزار شکایات ہیں جبکہ مناسب سہولیات کے فقدان کے باوجود کام جاری ہے۔بعد ازاں عدالت عالیہ نے فیصلے پر عملدرآمد سے متعلق قانون سازی اور کارروائی کی تفصیلات طلب کیں اور 26 جنوری تک پیمرا، ایف آئی اے ، پی ٹی اے اور وزارت داخلہ کو رپورٹ فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

متعلقہ عنوان :