بے نظیر بھٹو قتل کیس میںبری ہونے والے پانچوں ملزمان کو نوٹس جاری

سزا پانے والے پولیس افسران کو اپیل میں فریق نہیں بنایا تو پھر ان پر بحث کا کیا جواز ہے،عدالت مقامی پولیس بے نظیر بھٹو قتل کی سازش میں ملوث تھی صرف 2 پولیس افسران کو سزا دی گئی، فیصلے میں 302 کا ذکر تک نہیں،سردار لطیف کھوسہ کے دلا ئل ،سماعت 12فروری تک ملتوی ک

بدھ 20 دسمبر 2017 20:26

راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 دسمبر2017ء) عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ کے جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس طارق عباسی پر مشتمل ڈویژن بنچ نے پاکستان پیپلز پارٹی اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی ای)کی جانب سے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میںانسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں پربری ہونے والے پانچوں ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 12فروری تک ملتوی کر دی ہے عدالت نے قرار دیا ہے کہ درخواست گزار نے جب سزا پانے والے پولیس افسران کو اپیل میں فریق نہیں بنایا تو پھر ان پر بحث کا کیا جواز ہے ٹرائل کورٹ میںپولیس افسران کی سازش کیسے ثابت ہوئی بدھ کے روز سماعت کے موقع پر سابق صدر آصف علی زرداری کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے سابق پولیس افسران کی سزا میں اضافے کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ پولیس افسران کو صرف 2الزامات میں سزا دی گئی جبکہ ٹرائل کورٹ میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف مجموعی طور پر 11الزامات عائد کئے گئے لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ مقامی پولیس بے نظیر بھٹو قتل کی سازش میں ملوث تھی صرف 2 پولیس افسران کو سزا دی گئی، فیصلے میں 302 کا ذکر تک نہیںکہیں نہیں بتایا گیا کہ قتل کا کیا ہوا اعتزاز شاہ کا نابالغ کے طور پر الگ ٹرائل کیا گیاملزمان کی کالز ریکارڈ کی گئیںلیکن فیصلے میں کالوں کا ذکر نہیں، کرایہ کے مکان میں رہنے والے ملزمان کے کپڑوں تک کا ڈی این اے ٹیسٹ ہوا رفاقت، حسنین گل، اعتزاز اور شیرزمان کا اقبال جرم موجود ہے عدالتی فیصلے میںملزمان کے اقبال جرم کو بھی نظر انداز کیا گیاقتل کے ملزمان عدالت نے بری کئے جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ میں پولیس افسران کی جانب سے قتل کی سازش کیسے ثابت ہوئی جس پر لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ بری ہونے والے ملزمان تو مہرے تھے قتل کروانے والے اور تھے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ یہ عام قتل کیس نہیں سازش کی کڑیاں مکمل نہیں ہیںجس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ کڑیاں موجود ہیں سعود عزیز کی تعیناتی،ایلیٹ انچارج اشفاق انور کو ہٹانا، اسی روز نواز شریف کو زیادہ سکیورٹی دی گئیاور بے نظیر بھٹو کو کم دی گئی، بے نظیر بھٹو قتل کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بہت سی غلطیاں ہیںجس پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ بین الاقوامی سطح کا کیس لڑ رہے ہیں، اسے بین الاقوامی طرز پر ہی لڑا جانا چاہئے یہ بات غور طلب ہے کہ 119 کی دفعہ کے تحت سزا کیسے ہو سکتی ہے کہ جب دفعہ302 میں کسی کو سزا نہ ہوجس پر لطیف کھوسہ نے موقف اختیار کیا کہ سابق سی پی او سعود عزیز اورایس پی راول ڈویژن خرم شہزاد کو قتل کی دفعہ میں بھی سزا ہونی چاہئے تھی جبکہ پرویز مشرف کو ان کی عدم موجودگی میں بھی سزا ہو سکتی تھی جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سعود عزیز اور خرم شہزاد کی سزا کے حوالے سے ان کی اپیل سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اس کا فیصلہ آ لینے دیںفی الوقت بریہونے والی5 ملزمان کو نوٹس جاری کرتے ہیںدریں اثنا سماعت کے بعد سردار لطیف کھوسہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے بے نظیر کو کہا تھاکہ آپ کی سلامتی میرے ساتھ تعلقات پر منحصر ہے ٹرائل کورٹ نے فیصلہ غلط سنایا ہے بیت اللہ محسود سے پرویز مشرف تک سازش کی تمام کڑیاں ملتی ہیںجنرل باجوہ کا سینیٹ میں جانا اچھا شگون ہے نواز شریف نے تمام معاملات فوج کے سپرد کئے ہیں آصف علی زرداری نے طاہرالقادری کے ساتھ دینے کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں چھوڑاجبکہ پولیس افسران سعود عزیز اور خرم شہزاد کے وکیل راجہ غنیم عبیرنے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ سازش کا کوئی ثبوت ٹرائل میں پیش نہیں کیا گیادونوں کو آصف زرداری کی اپیل میں فریق نہیں بنایا گیااس لئے عدالت نے انہیں نوٹس نہیں کیاان کی ضمانت کے خلاف پیپلز پارٹی درخواست سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ادھرپرویزمشرف کے وکیل اختر شاہ نے کہا کہ پرویز مشرف علاج کے لئے باہر گئے ہیں ملک سے بھاگے نہیںمشرف کو سکیورٹی دی جائے تو وہ آجائیں گے یاد رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے 10سال بعدرواں سال18ستمبر کوباضابطہ فریق بنتے ہوئے سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو قتل کیس میںانسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کو عدالت عالیہ راولپنڈی بنچ میں چیلنج کیا تھا پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین و بے نظیر بھٹو کے شوہر سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے سابق صدر پرویز مشرف کے علاوہ مقدمہ میں سزا پانے والے دونوں پولیس افسران اور بری ہونے والے پانچوں ملزمان کے خلاف3الگ الگ اپیلیں دائر کی گئی ہیں جن میں موقف اختیار کیا گیا کہ پرویز مشرف کی حد تک کیس کو الگ کرنا انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے ،جبکہ دونوں پولیس افسران کو مقدمہ کی دیگر دفعات کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی جو قانونا غلط ہے اسی طرح جن 5ملزمان کو بری کیا گیا انہیں سزائے موت ہونی چاہئے تھی انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997کی دفعہ25اے کے تحت دائر اپیلوں میں سابق صدر پرویز مشرف ، سابق سی پی او راولپنڈی سعود عزیز ،سابق ایس پی راول ڈویژن خرم شہزا د کے علاوہ رفاقت حسین ، حسنین گل ، شیر زمان اور رشید احمدترابی کو فریق بناتے ہوئے استدعا کی گئی ہے کہ تمام ملزمان کو جرم کے لحاظ سے سزائیں دی جائیں یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی راولپنڈی کی خصوصی عدالت نمبر1کے جج محمد اصغر خان نے گزشتہ ماہ 31اگست کوبے نظیر قتل کیس کے فیصلے میں سابق صدر پرویز مشرف کی حد تک کیس کو فیصلے سے الگ کرتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتای جاری کئے تھے اور ان کی جائیداد قرق کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ 2سابق پولیس افسران کو 17,17سال قید اور 10لاکھ روپے فی کس جرمانے کی سزا سنانے کے ساتھ دیگر5ملزمان کو بری کر دیا تھا ۔