صنعتی شعبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے آئندہ سیشن میں تفصیلی بحث کی جائے گی جبکہ حکومت نے سینٹ کو آگاہ کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کم نہیں ہوئی، ملکی ضروریات کے پیش نظر درآمدات کو کم نہیں کیا جا سکتا

چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی کے ریمارکس

پیر 18 دسمبر 2017 21:00

صنعتی شعبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے آئندہ سیشن میں تفصیلی بحث کی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 دسمبر2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ صنعتی شعبہ کو درپیش مسائل کے حوالے سے آئندہ سیشن میں تفصیلی بحث کی جائے گی جبکہ حکومت نے سینٹ کو آگاہ کیا ہے کہ صنعتی پیداوار کم نہیں ہوئی، ملکی ضروریات کے پیش نظر درآمدات کو کم نہیں کیا جا سکتا۔ پیر کو ایوان بالا کے اجلاس کے دوران سینیٹر محسن عزیز نے تحریک پیش کی کہ یہ ایوان صنعتی شعبہ کے مسئلے کو زیر بحث لائے جو بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر منافع اور مسابقتی بن رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان پیداواری ملک کی بجائے تجارتی ملک بن رہا ہے۔

تحریک پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ پاکستان کی صنعت بند ہو رہی ہے اور بھارت کی صنعت پھل پھول رہی ہے، پاکستان پیداواری کی بجائے تجارتی ملک بن رہا ہے، صنعتی شعبہ بین الاقوامی مارکیٹ میں غیر منافع بخش اور مسابقتی بن رہا ہے۔

(جاری ہے)

سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ 50 کے قریب صنعتیں فوجی ہیں، 2007ء میں چھپنے والی کتاب میں بتایا گیا کہ اس کے 10 بلین پائونڈز کے قریب نیٹ اثاثے ہیں، کسی مسابقتی عمل میں حصہ لئے بغیر ادارے کام کر ہے ہیں، سب کو یکساں مواقع ملنے چاہئیں۔

ایران میں بھی اسی طرح ہے، صرف دفاع سے متعلقہ صنعتوں میں فوج کا عمل دخل ہونا چاہیے۔ سینیٹر سعود مجید نے کہا کہ ہماری صنعتیں حکومت کی طرف سے مراعات اور سہولیات کے انتظار میں رہتی ہیں، پاکستان ان صنعتوں پر توجہ دے جن میں زیادہ مواقع ہیں، مینوفیکچرنگ پر توجہ دی جائے، پاکستان کو اپنی صنعتی بنیاد بڑھانی چاہیے، جو صنعتیں پہلے سے ہیں، وہی نہ لگائی جائیں، ہمیں انجینئرنگ کی بنیاد پر صنعتیں لگانی چاہئیں۔

سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ہماری برآمدات اس لئے کم ہوئی ہیں کہ لاگت بڑھ گئی ہے، بجلی گیس کی قیمت دو گنا ہو گئی ہے، ایگرو بیسڈ انڈسٹری کو کہاں لے کر جائیں گے، درآمدات، برآمدات میں خلیج بہت بڑھ گئی ہے، ہم ٹریڈنگ ملک بن گئے ہیں، آٹو موبائل مقامی سطح پر تیار کی جائیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پبلک سیکٹر کو ختم کر کے پرائیویٹ سیکٹر کو مضبوط کیا جاتا رہا، معاشی پالیسیاں استعماری اداروں کے ایماء پر بنتی ہیں، 80 فیصد بجٹ غیر ترقیاتی ہے، چین، ویت نام، بھارت کی طرح پبلک سیکٹڑ کو مضبوط کیا جائے، پالیسیوں کی سمت درست کی جائے۔

سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ میں پیداواری لاگت کم کرنی چاہیے، سٹیل ملز کے لئے باہر سے سرمایہ کاری آئی تھی لیکن وہ بند ہو گئی۔ سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ پاکستان سے صنعتی منتقل ہو رہی ہیں، اس کی وجوہات جاننے اور پیداواری لاگ کم کرنے کے طریقہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ طویل المعیاد منصوبہ بنانے کی ضڑورت ہے جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں شامل ہوں، حکومتوں کے آنے جانے سے اس منصوبے کو تبدیل نہیں ةونا چاہیے، سب سے زیادہ پریشان کاشتکار ہے، ہم صنعتی و زرعی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکے، گدون امازئی، موہنجوداڑو کا نقشہ پیش کر رہا ہے، سٹیل ملز بہت بڑا منصوبہ تھا جو تباہ ہو گیا۔

سی پیک کے لئے سامان اور خام مال بھی چین سے آ رہا ہے، کل دریائوں کنارے ریت لینے والا بھی کوئی نہیں ہو گا، ہمیں نئے حالات کے مطابق طویل المعیاد منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس معاملے پر آئندہ سیشن میں تفصیلی بحث کی جائے گی، اس حوالے سے تحریک لے آئیں۔ وزیر انڈسٹریز و پروڈکشن ارشد خان لغاری نے کہا کہ پیداوار کم نہیں ةوئی، حکومت انرجی مکس کی طرف جا رہی ہے، ملکی ضڑوریات کے پیش نظر درآمدات کو کم نہیں کر سکتے۔

متعلقہ عنوان :