نیب ریفرنس ،ْاسحق ڈار کے خلاف استغاثہ کے مزید 4 گواہان کا بیان قلمبند

جج محمد بشیر نے دستاویزات پر موجود دستخط اور انگوٹھے کے نشان کو گواہ سے تصدیق کروائی فیصل شہزاد نے اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کیں

پیر 18 دسمبر 2017 17:54

نیب ریفرنس ،ْاسحق ڈار کے خلاف استغاثہ کے مزید 4 گواہان کا بیان قلمبند
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 18 دسمبر2017ء) قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس میں استغاثہ کے مزید 4 گواہان نے اپنے بیان ریکارڈ کرادیئے۔ پیر کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے حوالے سے دائر ریفرنس کی سماعت کی۔

استغاثہ کے گواہ ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن واصف حسین نے بھی اپنا بیان قلمبند کرادیا جبکہ انہوں نے اسحٰق ڈار کی بطور وزیر اور دیگر تعیناتیوں کا ریکارڈ عدالت میں پیش کردیا۔واصف حسین نے عدالت کو بتایا کہ 25 جون 1997 کو اسحٰق ڈار بورڈ آف انویسٹمنٹ کے انچارج مقرر ہوئے، 11 جولائی 1997 میں اسحٰق ڈار کو وزراتِ تجارت کا قلمدان سونپا گیا، اور 6 نومبر 1998 کو اسحٰق ڈار کو وزارتِ خزانہ کے اکنامک آفیرز اور شماریات کی ذمہ داریاں سونپی گئی تھیں۔

(جاری ہے)

استغاثہ کے گواہ نے عدالت کو مزید بتایا کہ مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد 16 اکتوبر 1999 کو نواز شریف کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا تو اس کے ساتھ ہی اسحٰق ڈار سمیت نواز شریف کی کابینہ کے دیگر وزراء کو بھی کام سے روک دیا گیا۔ڈپٹی سیکریٹری کابینہ ڈویژن نے اپنے بیان میں عدالت کو بتایا کہ 31 ماچ 2008 کو اسحٰق ڈار کی بطور وزیر خزانہ ریونیو اکنامک افیئرز اور شماریات کا نوٹیفکیشن جاری ہوا جبکہ اسی سال 13 ستمبر کو ان کا بطور وزیر استعفی قبول کیا گیا تھا۔

استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ 7 جون 2013 کو اسحٰق ڈار کو اکنامک افیئرز، ریونیو، شماریات اور خزانہ کا وزیر مقرر کیا گیا تھا اور اس کے علاوہ اسحٰق ڈار کو پرائیویٹائزیشن کی ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں۔انہوں نے بتایا کہ 28 جولائی نواز شریف کی بطور وزیراعظم برطرفی کے بعد اسحٰق ڈار سمیت پوری کابینہ کو کام سے روک دیا گیا جبکہ 4 اگست 2017 کو اسحٰق ڈار نے ایک مرتبہ پھر وزیر خزانہ، ریونیو، شماریات اور اکنامک افئیرز کا قلمدان سنبھالا جبکہ 22 نومبر 2017 کو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر اسٹاف نیب لاہور رانا محمد علی کو تمام مطلوبہ دستاویزات کی کاپیاں ارسال کی گئیں جبکہ انہوں نے تفتیشی افسر نادر عباس کو اپنا بیان ریکارڈ کروایا۔جج محمد بشیر نے دستاویزات پر موجود دستخط اور انگوٹھے کے نشان کو گواہ سے تصدیق کروائی۔دوسری جانب استغاثہ کے گواہ قمر الزماں نے بھی اسحٰق ڈار کی تنخواہ، لوکل ٹی اے ڈی اے اور دیگر الاؤنسز کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا۔

نجی بینک کے افسر فیصل شہزاد اور ڈائریکٹر قومی اسمبلی شیر دل خان کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے۔فیصل شہزاد نے اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق ڈار کے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات بھی عدالت میں پیش کیں۔شیر دل خان نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 95 لاہور سے 1993 میں رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے 16 دسمبر 1993 کو بطور رکنِ قومی اسمبلی حلف اٹھایا۔

ڈائریکٹر قومی اسمبلی نے بتایا کہ اسحٰق ڈار 4 نومبر 1996 تک رکنِ قومی اسمبلی رہے جبکہ یہ بھی بتایا کہ جب کوئی بھی فرد رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوتا ہے تو اسے تنخواہ کی ادائیگی شروع ہو جاتی ہے اور اسحٰق ڈار 1993 میں 14 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ لیتے تھے۔اسحٰق ڈار دوسری مرتبہ این اے 97 سے رکنِ قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور 15 جنوری 1997 کو حلف اٹھایا اور 5 فروری 1997 کو وزیر بن گئے۔نیب پروسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کے وکیل کی جائیداد قرق کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو خط لکھ دیا گیا ہے۔بعد ازاں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کیس کی سماعت 21 دسمبر تک ملتوی کردی۔

متعلقہ عنوان :