سندھ حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی، 23 دسمبر کو دھرنے دیئے جائیں گے، نائب صدر سندھ آباد بورڈ

حکومت نے رکاوٹ پیدا کی تو ہر ضلع میں دھرنا دے کر شاہرائیں بلاک کی جائیں گی، صدر ایوان زراعت سندھ

اتوار 17 دسمبر 2017 20:33

�یدرآباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 17 دسمبر2017ء) ایوان زراعت سندھ کے صدر رئیس قبول محمد کھٹیان، سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ اور آبادگار اتحاد کے صدر میر زبیر تالپور نے اعلان کیا ہے کہ اب سندھ حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی، 23 دسمبر کو ہٹڑی بائی پاس چوک اور گھمبٹ خیرپور میں دھرنے دیئے جائیں گے اگر حکومت نے رکاوٹ پیدا کی تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ہر ضلع میں دھرنا دے کر شاہرائیں بلاک کی جائیں گی، حکومت کے طرف سے گنے کی قیمت 182 روپے مقرر کرنے کے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کو یقینی بنانے تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔

وہ شوگر کین گروئرز جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے جس میں زاہد حسین بھرگڑی، نبی بخش سٹھیو اور دیگر بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

رئیس قبول محمد کھٹیان نے کہا کہ 23 دسمبر کو 11بجے ایوب ہوٹل پر نیشنل ہائی وے پر دھرنا دیا جائے گا اور وہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ گنا کھیتوں میں کھڑا سوکھ رہا ہے کاشتکاروں کا اربوں روپے کا نقصان ہو چکا ہے کیونکہ گنے کے ساتھ ساتھ گندم کی کاشت کا موسم بھی نکل گیا ہے، ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ لاکھوں متاثرہ کاشتکار پیپلزپارٹی کے ووٹر ہیں اگر ان کا حق مارا جائے گا تو اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے، انہوں نے کہا کہ گنے کی صحیح قیمت نہ ملنے کے خلاف کچھ لوگ عدالت میں بھی گئے ہیں اور کاشتکار تنظیمیں گذشتہ دو ماہ سے مسلسل احتجاج کر رہی ہیں مگر اس کے باوجود کوئی نتیجہ نہیں نکلا، انہوں نے کہا کہ اب دھرنا منسوخ کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حکومت اپنے جاری کردہ نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کرائے۔

آبادگاد اتحادکے صدر میر زبیر تالپور نے کہا کہ سب بڑی تنظیموں نی23 دسمبر کو دھرنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے اب حکومت سے کوئی بات نہیں ہو گی، نیشنل ہائی وے پر ایوب ہوٹل کے قریب اور گھمبٹ خیرپور میں دھرنے دیئے جائیں گے، اگر حکومت نے قافلوں کو روکا اور تشدد کا راستہ اختیار کیا تو ہر ضلع میں کاشتکار دھرنا دیں گے، انہوں نے کہا کہ اب کاشتکاروں کا معاشی قتل عام بند ہونا چاہیے حکومت اپنے نوٹیفیکیشن پر عملدرآمد کرائے، انہوں نے کہا کہ شوگر مل مالکان کا موقف غلط ہے کاشتکاروں کو 130 روپے گنے کی قیمت ہرگز قبول نہیں، مل مالکان صرف چینی سے ہی نہیں بلکہ شیرے سے الکحل، بھگاس سے بجلی اور دیگر مصنوعات تیار کرکے اربوں روپے کماتے ہیں لیکن وہ کاشتکار کو کچھ دینے کے لئے تیار نہیں، انہوں نے کہا کہ 23 دسمبر کا دھرنا تاریخی ہو گا اور لاکھوں کاشتکار اپنے حق حاصل کرکے رہیں گے۔

سندھ آبادگار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا کہ ایکشن کمیٹی کی جدوجہد میں شامل تمام تنظیمیں غیرسیاسی ہیں اور صرف کاشتکاروں کے حقوق کے لئے کام کر رہی ہیں، انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر نکل کر حکومت کے خلاف احتجاج کرنا ہمارا کام نہیں ہے ہم نے ہمیشہ زراعت پیشہ لوگوں اور پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے حکومت کی مدد کی ہے لیکن اب ہم مجبور ہو گئے ہیں کہ سڑکوں پر آئیں، انہوں نے کہا کہ یہ بھی غیرمعمولی بات ہے کہ پاسما کے مطابق ملک میں 7 ملین ٹن چینی پیداہوئی ہے اور شوگر انڈسٹری کو 20 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے پہلے وفاقی حکومت سے پاسما نے 5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کی پھر اسے 15 لاکھ ٹن کرا لیا اور اس پر سبسڈی بھی منظور کرا لی جبکہ اس کے بعد 5 لاکھ ٹن چینی پر سندھ حکومت نے بھی سبسڈی منظور کر لی اس طرح پاسما نے اپنے تمام مطالبات منظور کرا لئے لیکن اس کے باوجود وہ حکومت کے جاری کردہ 182 روپے کی گنے کی قیمت کے نوٹیفکیشن کو جوتے کی نوک پر رکھے ہوئے ہے، انہوں نے کہا کہ یہ غیرمعمولی بات ہے کہ شوگر انڈسڑی پر قابض تیس چالیس افراد حکومت کو ڈکٹیٹ کرا رہے ہیں اور اس کی رٹ کو چیلنج کر رہے ہیں، اس سوال پر کہ آیا شوگر فیکٹری مالکان سبسڈی کے لئے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لئے تو 7 لاکھ ٹن چینی کی پیداوار کا دعویٰ نہیں کر رہے محمود نواز شاہ نے کہا کہ پاسما یہی کہہ رہی ہے یہ دعویٰ کتنا درست ہے اور پاسما کے پاس کتنا چینی کا اسٹاک ہے اس کی تصدیق کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر واقعتا چینی کا اتنا اسٹاک ہے تو چینی 25-30 روپے کلو سے زیادہ قیمت پر فروخت نہیں ہونی چاہیے مگر گذشتہ 60-65 روپے تک بھی فروخت ہوئی ہے، انہوں نے کہا کہ پاسما تو یہ تک دعویٰ کر رہی ہے کہ رواں سیزن میں چینی کی پیداوار 8 ملین ٹن تک پہنچ جائے گی ان اعداد و شمار کا جائزہ لے کر اس کو غلط یا صحیح ثابت کرنا حکومت کا کام ہے، انہوں نے کہا کہ پاسما نے اخبارات میں اپنے اشتہارات میں حکومت کے نوٹیفکیشن کو حقارت سے ٹھکرا دیا ہے اور تضحیک کرتے ہوئے کہا ہے کہ مل مالکان 182 روپے گنے کی قیمت ادا کرنے کی شیرینی خواہش پوری نہیں کر سکتے، انہوں نے کہا کہ شوگر مل مالکان نے 30 سال میں کوئی ایسا ایک سال بھی نہیں گزرا جب چینی کا اسٹاک ایک سال تک جمع رکھا ہو مگر وہ 4 سال سے کاشتکاروں کو گنے کی 182 روپے قیمت ادا کر رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے چینی 80 روپے کلو تک بھی فروخت کرکے ناجائز لوٹ مار کی ہے، انہوں نے کہا کہ کاشتکاروں کو اگر مل مالکان نے 130 روپے من گنے کی قیمت ادا کی تو اس طرح وہ کاشتکاروں کی جیب پر 45 ارب روپے کا ڈاکہ ڈالیں گے جو ناقابل قبول ہے، انہوں نے کہا کہ شوگر مل مالکان نے عوام کے ٹیکسوں کی کمائی سے 70 فیصد بینک لون لے کر یہ شوگرملیں لگائی ہیں مگر اب وہ حکومت کو بھی چیلنج کر رہے ہیں اور لاکھوں کاشتکاروں کا بھی خون نچوڑ رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ گھوٹکی ضلع کی 4 شوگرملیں کاشتکاروں کو 182 روپے فی من کی قیمت ادا کر رہی ہیں کیا وہ نقصان اٹھا کر ادائیگی کریں گی، انہوں نے کہا کہ یہ افسوسناک ہے کہ 25 افراد نے حکومت کو یرغمال بنا رکھا ہے لاکھوں کاشتکاروں کو لوٹا جا رہا ہے اب ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں رہا کہ ہم سڑکوں پر رہیں، انہوں نے کہا کہ مل مالکان کی ہٹ دھرمی سے صرف لاکھوں کسان ہاری زمیندار اور زرعی لیبر متاثر نہیں ہو رہے بلکہ ملک کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اس لئے اب یہ سارا مذاق بند ہونا چاہیے اگر حکومت نے اپنے نوٹیفکیشن پر عملدرآمد نہ کرایا تو احتجاج کا سلسلہ طویل ہو سکتا ہے۔

متعلقہ عنوان :