پاکستان دولخت ہوگیا لیکن پالیسی سازوں نے سبق نہیں سیکھا،

انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنانا تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے،خواجہ سعد رفیق دھرنا کلچر ختم ہونا چاہئے مذہبی و سیاسی جماعتیں احتجاج کا کوئی اور طریقہ اپنائیں،کوئی بھی ادارہ آئین سے ماوراکام کریگا تو اس سے ضرور سوال ہوگا،وفاقی وزیر ریلوے نواز شریف کیساتھ زیادتی اور ناانصافی کرتے ہوئے انھیں سیاست سے بیدخل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوئی،پریس کانفرنس

ہفتہ 16 دسمبر 2017 19:55

پاکستان دولخت ہوگیا لیکن پالیسی سازوں نے سبق نہیں سیکھا،
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 16 دسمبر2017ء) پاکستان مسلم لیگ(ن)کے مرکزی رہنما اور وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ پاکستان دولخت ہوگیا لیکن پالیسی سازوں نے سبق نہیں سیکھا، تمام سیاسی جماعتوں کی ذمے داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد بروقت یقینی بنائیں،دھرنا کلچر کو ختم ہونا چاہئے مذہبی و سیاسی جماعتیں احتجاج کا کوئی اور طریقہ اپنائیں،کوئی بھی ادارہ آئین سے ماوراکام کرے گا تو اس سے ضرور سوال ہوگا،نواز شریف کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کرتے ہوئے انھیں سیاست سے بیدخل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن اس کامیابی نہیں ہوئی، ان خیالات کا اظہار انھوں نے ہفتہ کو مسلم لیگ ہائوس میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر ان کے ہمراہ سنیٹر سلیم ضیاء، مسلم لیگ ن سندھ کے صدر بابو سرفراز جتوئی،جنرل سیکرٹری سندھ شاہ محمد شاہ، رکن سندھ اسمبلی سورٹھ تھیبومسلم لیگ (ن) کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری خواجہ طارق نذیر، میڈیا کوآرڈی نیٹر کراچی دویژن عبدالحمیدبٹ، خواجہ نیئرشریف اور دیگر رہنما بھی موجود تھے۔

(جاری ہے)

خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ وہ نواز شریف کی ہدایات پرکوئٹہ اور کراچی کے چار روزہ دورے پر تھے اس دورے میں انھوں نے سیاسی کام بھی کئے ریلوے کے حوالے سے بھی کام کئے ہیںسبی میں ریلوے کا ٹریک دوبارہ سے تعمیر کیا جارہا ہے وہاں ریلوے آپریشن 2018،میں بحال ہوجائے گا، اس کے علاوہ کوئٹہ اور کراچی میں ہم نے سیاسی مشاورتیں کی ہیں، کراچی اور اندرون سندھ کے حوالے سے سے طے پایا ہے کہ کیوں کہ انتخابات کا وقت قریب ہے اس لئے پارٹی کو متحرک کرنے کے لئے ورکرز کنویشن کا سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ شروع کیا جائے ، اور کراچی کے ہر ضلع میں ورکرز کنونشن منعقد کئے جائیں، ہماری پارٹی میں کراچی اور اندرون سندھ سے معروف شخصیات بھی پارٹی میں شامل ہورہی ہیں گذشتہ دنوں اسد جونیجو اور دو روز قبل اشتیاق بیگ ہمارے ساتھ شامل ہوئے ہیںاس کے علاوہ مسلم لیگ ہائوس کو بھی فنکشنل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ان دنوں ملک میں سیاست بہت گرم ہے اس ہی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر حالات تبدیل ہورہے ہیں اللہ کا شکر ہے کہ مردم شماری کے معاملے پر تمام پارلیمانی جماعتیں آئینی ترمیم کرنے پر رضا مند ہوگئی ہیںخواہش ہے آمریت کے سائے کے بغیر جمہوریت چلتی رہے اور ووٹ کے ذریعے سے تبدیلی آتی رہے، کچھ لوگ باہر بیٹھ کر قومی سلامتی کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جبکہ ان کو یہ بات نہیں معلوم کہ آئین کے ذریعے سے ملک میں تمام لوگوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے، نواز شریف کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی کی گئی اور انھیں سیاست سے بیدخل کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں کامیابی نہیں ہوسکی۔

میں کہتا ہوں کہ یوسف رضا گیلانی ، یا جہانگیر ترین ان کے فیصلے اداروں کو کرنے بجائے عوام کو کرنے چاہیے تھے۔کچھ لوگوں نے دھرنا سیاست کا آغاز کیا اس میں ناکامی کے بعد یہ لوگ عدالتوں میں چلے گئے اور اس کے بعد سے فیصلے آنے شروع ہوگئے۔دھرنا کلچر اب ختم ہونا چاہئے مذہبی و سیاسی جماعتیں دھرنوں کے بجائے احتجاج کا کوئی اور طریقہ اپنائیں، ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کو گرادیں گے ان لوگوں میں حکومت گرانے کی اہلیت نہیں، خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ملک و قوم کے فیصلے بند کمروں میں نہیں ہونا چاہیئے اس رواج کو ختم کیا جائے اس کے علاوہ نظریہ ضرورت بھی ختم ہونا چاہئے۔

ملک کا چیف ایگزیکٹو ہو یا کسی صوبے کو اسے تمام اختیارات ملنے چاہیں آئینی اختیارات کو چیلنج نہیں کیا جانا چاہئے ریڈ لائن کسی کو بھی نہیں عبور کرنا چاہئے سیاستدان اور ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش نہ کریں۔انھوں نے کہا کہ طالبان کو فورسز نے ختم کیا کچھ مذہبی لوگوں کی جانب سے ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ اگر ان کی خدمت میں پیش نہیں ہوئے تودائرہ اسلام سے خارج کردیا جائے یہ کونسا طریقہ ہے۔

انھوں نے کہا کہ جو بھی عدلیہ کی جانب سے فیصلے آرہے ہیں ان پر عملددآمد ہونا چاہئے ہم سب فیصلوں کے پابند ہیں انھوں نے کہا کہ کوئی بھی ادارہ آئین و قانون سے بالا تر نہیں ہے ، کوئی بھی ادارہ آئین سے ماورا کام کرے گا اس سے سوال ضرور ہوگا۔جمہوریت کی حفاظت کرنا سیاسی جماعتوں ، عدلیہ اور ریاستی اداروں کا کام ہے ملک و عوام کے حوالے عوام پر چھوڑ دینے چاہیں۔

انھوں نے کہا کہ ملک ٹوٹ گیا لیکن پالیسی سازوں نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا اب بھی وقت ہے کہ تمام پالیسی میکرز 16دسمبر کے سانحہ کو یاد کریں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ملک کو نقصان ہو اور کسی کو داغدار کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔ گالیوں کی سیاست بھی ختم ہونا چاہئے کسی کو بد نام کرکے مہر لگا کر غلط پروپیگنڈے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اگر یہ باتیں کامیاب رہی ہوتیں تو اب تک ملک سے سیاست ختم ہوچکی ہوتی۔

لیکن میں پھر بھی کہوں گا اب مثبت باتیں بھی ہو رہی ہیں سیاسی جماعتوں اور اداروں میںبلوغت آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ پرنٹ میڈیا تو ذمے داری کا ثبوت دے رہا ہے لیکن الیکٹرونک میڈیا کو بھی چاہیے کہ وہ بھی ذمے داری کا ثبوت دے ایک ٹی وی اینکر کو عزت پیاری نہیں اگر میں ان کے خلاف کوئی بات کروں گا تو وہ مجھ پر چھ پروگرام کردیں گے ایسے لوگوں لوگوں کی وجہ سے حقیقی صحافیوں کی حق تلفی ہورہی ہیانھوں نے کہا کہ مجھے اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ جب لوگ لاہور کا موازنہ کراچی سے کرتے ہیں اور کہتے ہیں لاہور کے مقابلے میں کراچی بہت پیجھے رہ گیا جبکہ کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اس کی ترقی ہونی چاہیے تھی کراچی کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہوتا ہی18ترمیم کے بعد سندھ حکومت کے پاس فنڈز کی بھی کوئی کمی نہیں ہوگی۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مریم نواز جو کچھ کہہ رہی ہیں انھیں اس کی آزادی حاصل ہے۔انھوں نے کہا کہ آئندہ کے انتخابات قریب ہیں سیاسی جماعتیں صف بندیاں کر رہی ہیں انتخابات میں پیپلز پارٹی ، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا مقابلہ ہوگا۔

متعلقہ عنوان :