قائداعظم کی نصیحت کے مطابق قوم کے تمام طبقات قانون اور ’’رولز آف دی گیم‘‘ کا احترام کریں، تمام مسائل و اختلافات حب الوطنی اور خیر خواہی کے جذبے اور نیک نیتی واتحاد کے ساتھ حل کریں

صدر مملکت ممنون حسین کا بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے حوالے سے خصوصی تقریب سے خطاب

جمعہ 15 دسمبر 2017 16:50

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 دسمبر2017ء) صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ قائداعظم کی نصیحت کے مطابق قوم کے تمام طبقات قانون اور ’’رولز آف دی گیم‘‘ کا احترام کریں اور تمام مسائل اور اختلافات حب الوطنی اور خیر خواہی کے جذبے اور نیک نیتی واتحاد کے ساتھ حل کریں۔ انہوں نے یہ بات بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ کے حوالے سے جمعہ کو ایوان صدر میں منعقد ہونے والی ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

اس موقع پر چیئرمین ہائر ایجو کیشن کمیشن ڈاکٹر مختار احمد، ممتاز ترک سکالر اور یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ ترکی کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار اور ممتاز ادیب اور دانشور پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے بھی خطاب کیا۔ صدر مملکت نے کہا کہ یہ بڑے دکھ کی بات ہے کہ اتحاد کا جو سبق ہمارے بزرگوں نے قیام پاکستان سے بھی پہلے ہمیں سکھایا تھا، آزادی کے بعد اسے بھلا دیا گیا جس کے نتیجہ میں قیام پاکستان کے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ہی وطن عزیز میں سیاسی بے اصولی اور قانون شکنی کے مظاہرعام ہو گئے لیکن ماضی قریب اور خاص طورپر موجودہ دور میں تو صورتحال بہت بگڑ چکی ہے، آج سیاسی، معاشی، معاشرتی، مذہبی، انتظامی حتیٰ کہ دشمن کے ساتھ نمٹنے جیسے اہم ترین معاملات میں بھی جن دشواریوں کا ہمیں سامنا ہے اس کی جڑیں قانون کے عدم احترام اور رولز آف دی گیم کی خلاف ورزی میں مضمر ہیں، اس طرز عمل کی فوری طور پر اصلاح نہ کی گئی تو صاف نظر آ رہا ہے کہ معاملات آگے چل کر بالکل ہی ہاتھ سے نکل جائیں گے، خدانخواستہ یہ صورتحال پیدا ہو گئی تو مجھے ڈر ہے کہ ہمیں شاید سنبھلنے کا موقع بھی نہ مل سکے، اس طرح ملک ایسے پیچیدہ مسائل میں الجھ جائے گا جس کے نتیجہ میں اقتصادی استحکام اور ترقی و خوشحالی کے وہ تمام خواب کبھی شرمندہٴ تعبیر نہ ہو سکیں گے جو آج بڑی امیدوں کے ساتھ دیکھے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)

اس لئے میں قوم کے ہر طبقے، خاص طور پر نوجوانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ نظام حکومت کے بے وقت اور غیر ضروری مباحث سمیت ہر قسم کے سیاسی و غیر سیاسی بکھیڑوں سے لاتعلق ہو کر قومی ترقی و خوشحالی کے عظیم مقصد پر متحد ہو جائیں اور باہم دست و گریباں سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ وہ بھی قائداعظم کی نصیحت کے مطابق قانون اور رول آف دی گیم کا احترام کریں، اگر کسی معاملہ میں کچھ مسائل ہیں تو بہتر طریقہ یہ ہے کہ سب مل بیٹھیں اور حب الوطنی و خیر خواہی کے جذبہ کے تحت پوری نیک نیتی اور اتحادکے ساتھ ان گتھیوں کو سلجھا لیں۔

اس عہد کی پرآشوب صورتحال میں قائداعظم کا ہمارے لئے سب سے بڑا پیغام یہی ہے۔ قومی تہوار اور خصوصی ایام منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان مقاصد کی یاددہانی کی جائے جن مقاصد کیلئے ہمارے بزرگوں نے اپنا تن من دھن قربان کر دیا، بابائے قوم کے یوم ولادت کے موقع پر ضروری ہے کہ ان کے تصورِپاکستان کو ایک بار پھر سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ قائداعظم پاکستان کو یقیناً اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے، اپنی اس خواہش کا انہوں نے کئی بار اظہار بھی کیا، مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگ قائداعظم کی اس خواہش کے بارے میں مختلف آراء رکھتے ہیں لیکن قوم کی نظریاتی نہج کو درست رکھنے کیلئے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام کی تجربہ گاہ کے حوالہ سے ان کی مراد کیا تھی۔

قائداعظم چاہتے تھے کہ قرآن و سنت کی رہنمائی میں ہر قسم کے استحصال سے پاک ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں سماجی انصاف کو یقینی بنایا جائے اور برداشت اور رواداری جیسی خوبیوں کو فروغ دیا جائے، جدید تعلیم سے آراستہ ہر شعبہ زندگی کے ماہرین تیار کئے جائیں جو اپنی وسیع النظری، قابلیت اور لیاقت سے اپنے عہد کے تمام چیلنجوں سے بہ طریقِ احسن نمٹ سکیں۔

وہ چاہتے تھے کہ پاکستان کے شاندار محل وقوع سے فائدہ اٹھا کر نہ صرف وطنِ عزیز بلکہ اس کے ثمرات پورے خطے تک پہنچنے چاہئیں۔ مقام شکر ہے کہ پاکستان اب اس راستے پر گامزن ہو چکا ہے لیکن پریشانی کی بات یہ ہے کہ سیاسی بحرانوں کی وجہ سے اس عظیم منزل کی جانب ہماری پیش قدمی کی رفتار سست ہو رہی ہے۔ آزمائش کی اس کیفیت کے باوجود مجھے پورا یقین ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت سے ان تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے۔

مجھے اپنی قوم، خاص طور پر نوجوانوں کی فہم و فراست اور صلاحیتیوں پر مکمل اعتماد ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ قومی زندگی کے اس فیصلہ کن مرحلے میں وہی کردار ادا کریں گے جو تحریکِ پاکستان کے زمانے میں طلباء نے ادا کر کے تاریخ کا دھارا بدل ڈالا تھا۔ صدر مملکت نے کہا کہ ترکی کی نمائندگی سے یہ نشست یادگار حیثیت اختیار کر گئی۔ ڈاکٹر طوقار کی گفتگو سے ایک بار پھر یہ حقیقت واضح ہوئی کہ پاکستان اورترکی کے رشتے میں کتنی گہرائی، کتنی گرمجوشی اور ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔

دونوں برادر ملکوں کا رشتہ اقوام عالم کیلئے ایک مثال ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان اور ترکی اپنی ہم آہنگی اور باہمی تعاون کے ساتھ نہ صرف اسلامی دنیا کو درپیش مسائل سے بخوبی نمٹ سکتے ہیں بلکہ اس عہد کے بہت سے دیگر بحرانوں کے حل میں مثبت کردار ادا کرکے انسانیت کے دکھوں میں نمایاں کمی بھی لا سکتے ہیں۔ پاکستان اور ترکی بنی نوعِ انسان کی بھلائی کیلئے اپنا یہ کردار ہمیشہ ادا کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے کہا کہ ترک قوم قائداعظم اور علامہ اقبال کو ترک اور اپنا ہیرو سمجھتی ہے جبکہ کراچی یونیورسٹی میں ماس کمیونیکیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر طاہر مسعود نے کہا کہ قائداعظم کے اوصاف اختیار کر کے قوم میں اتحاد اور یکجہتی پیدا کی جا سکتی ہے۔