سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کردی

نیب کی زائد المدت اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں۔ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی ،ْ جسٹس مشیر عالم بینچ میں شامل تینوں ججز نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل کے خلاف متفقہ طور پر فیصلہ دیا

جمعہ 15 دسمبر 2017 14:29

سپریم کورٹ نے حدیبیہ کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کردی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 دسمبر2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کیس دوبارہ کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل مسترد کردی۔ جمعہ کو سپریم کورٹ کے جج جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین 3 رکنی بنچ نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کھولنے سے متعلق نیب کی درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی اپیل مسترد کردی ،ْتحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔

سماعت کے دور ان نیب کے وکیل عمران الحق نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے میں خلا ہے اس لئے انصاف کے تقاضے پورے کرنے کیلئے ریفرنس کھولنے کی اجازت دی جائے جس پر جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ اسحاق ڈار کو تو آپ نے فریق ہی نہیں بنایا ،ْاگر اسحاق ڈار کے بیان کو نکال دیا جائے تو ان کی حیثیت ملزم کی ہوگی ،ْاس موقع پر نیب کے وکیل نے کہا کہ ملزم کے نہ ہونے کے باعث چارج فریم نہیں کیا جاسکا جبکہ اسحاق ڈار نے معافی نامہ دیا تھا جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ جس بیان پر آپ کیس چلا رہے ہیں وہ دستاویز لگائی ہی نہیں۔

(جاری ہے)

اسپیشل پراسیکیوٹر نیب کی جانب سے نواز شریف کیس کا حوالہ دیا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ پاناما آبزرویشن کے بجائے نیب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو ،ْآرٹیکل 37 مقدمات کے تیز تر پراسیکیوشن کا کہتا ہے، میں نیب کی توجہ آرٹیکل 13 پر مرکوز نہیں کروں گا ،ْنواز شریف کیس میں سزا ہوئی تھی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شریف فیملی ریفرنس ختم کروانے لاہور ہائی کورٹ گئی تو نیب جاگی ،ْبرسوں کیس چلا اور چارج فریم نہیں کیا گیا۔

جسٹس مشیر عالم نے نیب کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپیل دائر کرنے میں تاخیر پر عدالت کو مطمئن کریں ،ْہم ریفرنس نہیں اپیل سن رہے ہیں ،ْتاخیر کی رکاوٹ دور کریں پھر کیس بھی سنیں گے۔پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ آئین کے تحت چیف ایگزیکٹو محکموں کے سربراہان کا تقرر کرتا ہے اور ان افراد کا تقرر کیا جاتا ہے جو عہدے کے لیے مناسب ہوں جس پر عدالت نے کہا کہ جنرل (ر) مشرف کے دور میں نواز شریف کو سزا بھی ہوئی، پھر سزا بڑھانے کے لیے درخواستیں بھی دائر ہوئیں، ایسے مقدمات میں سیاسی پہلو بھی ہوتے ہیں۔

عدالت نے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے اسے کچھ دیر میں سنائے جانے کا اعلان کیا بعد ازاں بعد ازاں جسٹس مشیر عالم نے فیصلہ سناتے ہوئے نیب کی حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کو دوبارہ کھولنے کی اپیل کو مسترد کردیا ۔جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ نیب کی زائد المدت اپیلیں مسترد کی جاتی ہیں اور تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل شامل تھے۔

بینچ میں شامل تینوں ججز نے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل کے خلاف متفقہ طور پر فیصلہ دیا ۔یاد رہے کہ رواں برس 10 نومبر کو حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق نیب کی اپیل پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کا 3 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تاہم 13 نومبر کو حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی سماعت سے قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس کیس کی سماعت کے لیے تشکیل کیے گئے بینچ کا حصہ بننے سے معذرت کر لی تھی۔

بعد ازاں اس کیس کی سماعت کے لیے بینچ دوبارہ تشکیل کرنے کا معاملہ واپس چیف جسٹس کو بھیج دیا گیا تھا۔چیف جسٹس نے جسٹس مشیر عالم، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے 28 نومبر کو اس کیس کی سماعت کی۔عدالت عظمیٰ نے نیب سے حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت 11 دسمبر تک کیلئے ملتوی کر دی تھی۔

بعدِ ازاں نیب کی جانب سے نئے پراسیکیوٹر کی تقرری تک سپریم کورٹ میں کیس کے التواء کی درخواست دائر کی گئی تھی۔11 دسمبر کو ہونے والی سماعت میں سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز ریفرنس کو براہِ راست ٹیلی ویژن پروگرامز میں زیر بحث لانے پر پابندی عائد کردی تھی۔واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کے خلاف نیب نے ایک ارب 20 کروڑ روپے بد عنوانی کے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس 17 برس قبل 2000 میں دائر کیا تھا تاہم 2014 میں لاہور ہائی کورٹ نے یہ ریفرنس خارج کرتے ہوئے اپنے حکم میں کہا تھا کہ نیب کے پاس ملزمان کے خلاف ثبوت کا فقدان ہے۔

پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کے دوران سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) نے کیس کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو حدیبیہ پیپر ملز کیس کا ریکارڈ جمع کرایا تھا جس میں 2000 میں اسحق ڈار کی جانب سے دیا جانے والا اعترافی بیان بھی شامل تھا۔اسحٰق ڈار نے اس بیان میں شریف خاندان کے کہنے پر ایک ارب 20 کروڑ روپے کی منی لانڈرنگ کرنے اور جعلی بینک اکاؤنٹس کھولنے کا مبینہ اعتراف کیا تھاتاہم بعد ازاں انہوں نے اپنے اس بیان کو واپس لیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ بیان ان سے دباؤ میں لیا گیا۔

متعلقہ عنوان :