اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے

ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا اظہار خیال

جمعہ 15 دسمبر 2017 14:29

اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 15 دسمبر2017ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے اور پارلیمان کو مضبوط کیا جائے۔ جمعہ کو ایوان بالا کے اجلاس میں اسلامی فوجی اتحاد کے قیام کے حوالے سے سینیٹر شیری رحمان کی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ اسلامی فوجی انسداد دہشت گردی اتحاد سے کئے گئے وعدوں کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا، ہم مشرق وسطیٰ کے گرداب میں پھنس رہے ہیں‘ فیصلہ سازی میں اس ہائوس اور وزارت خارجہ کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا اور جب صورتحال خراب ہوتی ہے تو اس ہائوس سے کہا جاتا ہے کہ صورتحال کی بہتری کیلئے اقدامات کئے جائیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے چیئرمین سے اس ضمن میں رولنگ جاری کرنے کا مطالبہ کیا۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ پارلیمان کی بالادستی کی محض باتیں کی جاتی ہیں‘ میں ایک بل لایا پیپلز پارٹی نے بھی اسے بلڈوز کیا‘ باہر سے کسی نے آکر پارلیمان کو مضبوط نہیں کرنا‘ ہم نے ہی کرنا ہے، ہم صرف اپنے محدود مقاصد کیلئے پارلیمان کو استعمال کرتے ہیں، ہم نے خود کو اس قابل ہی نہیں بنایا کہ پارلیمان سے اہم فیصلوں میں رائے لی جائے۔

سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ہم پارلیمان میں بول سکتے ہیں لیکن ہمارے بولے ہوئے الفاظ بے معنی ہوجاتے ہیں، ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہم کس کے مفاد میں فیصلے کر رہے ہیں، پارلیمان کو کوئی اہمیت دی ہی نہیں گئی۔ اگر فوجی اتحاد میں شمولیت ملک کے حق میں ہے تو کم از کم پارلیمان کو اعتماد میں تو لیا جائے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ پارلیمان کو اسلامی فوجی اتحاد کے ٹی او آرز کے بارے میں کیوں نہیں بتایا جاتا‘ تمام فیصلوں میں پارلیمان کو اعتماد میں لیا جائے۔

سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ پاک فوج نے بہت قربانیاں دی ہیں جن کی بدولت دہشت گردی کا خاتمہ ہوا۔ پارلیمان نے یمن کے حوالے سے بحث کے دوران فیصلہ کیا کہ فوج سعودی عرب نہیں جائے گی، فیصلے پارلیمان کے ذریعے ہونے چاہئیں۔ امریکہ‘ ایران ‘ سعودی عرب میں سے ہم کس کا ساتھ دیں گے۔ پارلیمان کو بتایا جائے کہ ہماری کیا سمت ہے‘ فیصلے مل کر کئے جائیں۔

سینیٹر اے رحمن ملک نے کہا کہ مشرق وسطیٰ کی صورتحال مزید خراب ہوتی نظر آرہی ہے۔ حکومت نے پارلیمان کے ذریعے فوجیں سعودی عرب نہ بھجوانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسلامی فوجی اتحاد کے حوالے سے بہت سے سوالات ہیں۔ اس کی فنڈنگ کون کرے گا یہ کیسے اور کس قانون کے تحت کہیں جاکر کارروائی کرے گی یہ سب چیزیں سامنے آنی چاہئیں۔ ٹی او آرز اگر اب تک نہیں بنے تو ان کو بنانے کیلئے مشاورت کرلی جائے۔

سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ نیٹو کارروائی کرے تو ہم سب حمایت کرتے ہیں‘ مسلمان ممالک مل کر کوئی کام کریں تو ہمیں اسے اچھی نظر سے دیکھنا چاہیے۔ دہشتگردی جہاں بھی ہو ہم سب کو اس کے خلاف متحد ہونا چاہیے‘ دنیا میں جہاں بھی دہشتگردی سے اسلام اور مسلمانوں کا اس سے تعلق جوڑا جاتا ہے مسلمان کس طرح دہشتگردی کر سکتا ہے، ہم سب کو پارلیمان کی عزت کرنی چاہیے۔

اگر ہم دھرنوں والوں کے پیچھے چھپیں گے اور ان کے پاس جائیں گے تو پارلیمان کیسے مضبوط ہوگی۔ سینیٹر جہانزیب جمالدینی نے کہا کہ ہمیں مفروضوں سے باہر نکلنا چاہیے۔ بیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت بن گیا او آئی سی نے محض بددعائیں دیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ عرب ممالک سمیت تمام اسلامی ملکوں میں جمہوریت ہونی چاہیے۔ ہمیں جمہوریت کو مضبوط بنانا چاہیے۔

اسلامی دنیا کے مسائل حل کرنے میں او آئی سی کا کوئی کردار نہیں۔ سینیٹر میر کبیر شاہی نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے واضح طور پر کہا کہ اسلامی فوجی اتحاد ایران کے خلاف بنایا گیا ہے‘ پھر بھی ہم آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ نزہت صادق نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں‘ ہمیں کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے اس حوالے سے معلومات حاصل کرنی چاہئیں۔

حکومت نے اس حوالے سے اپنی حکمت عملی اور پالیسی وضع کردی ہے اور بتا دیا ہے کہ ہم کسی کے خلاف اتحاد میں شامل نہیں ہوں گے۔ یہ معاملہ پارلیمان میں لایا جائے گا۔ سینیٹر ایم حمزہ نے بھی پارلیمان کو مضبوط بنانے پر زور دیا۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ حکومت اس معاملے پر توجہ دے۔ سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ پارلیمان کو اہم معاملات پر بحث کرنی چاہیے۔ ہر حکومت پارلیمان سے اہم معاملات کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ اسلامی فوج کہیں نظر نہیں آرہی۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ متعلقہ وزیر منگل کو اس معاملے پر بحث سمیٹیں گے۔