آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ملکی معیشت کی ضرورت کے تحت کیپٹل مارکیٹ میں جانا پڑا تو اس کی سہولت موجود ہے، انفلوز کے حوالہ سے زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی، جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے اور اخراجات کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے

سیکرٹری خزانہ شاہد محمود کی آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان کے حوالہ سے میڈیا کو بریفنگ

جمعہ 15 دسمبر 2017 00:04

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2017ء) سیکرٹری خزانہ شاہد محمود نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، ملکی معیشت کی ضرورت کے تحت کیپٹل مارکیٹ میں جانا پڑا تو اس کی سہولت موجود ہے، انفلوز کے حوالہ سے زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی، جی ڈی پی کی شرح نمو کو بڑھانے اور اخراجات کو کنٹرول میں رکھنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔

وہ جمعرات کو آئی ایم ایف مشن کے دورہ پاکستان کے حوالہ سے میڈیا کے نمائندوں کو بریفنگ دے رہے تھے۔ آئی ایم ایف مشن نے ہیرالڈ فنگر کی قیادت میں 5 سے 14 دسمبر تک پاکستان کا دورہ کیا جس کا مقصد ستمبر 2016ء میں توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے اختتام کے بعد سے پہلی پوسٹ پروگرام مانیٹرنگ تھا۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ حکومت پاکستان نے فسکل کنسولیڈیشن کے راستے پر گامزن رہنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔

(جاری ہے)

اس سلسلہ میں ایف بی آر کے ریونیو میں اضافہ اور اخراجات کے پائیدار انتظام پر توجہ مرکوز رکھی جائے گی، حکومت سرکاری شعبہ کے کاروباری اداروں کیلئے اصلاحاتی پروگرام جاری رکھنے اور معاشرہ کے کمزور طبقات کے تحفظ کیلئے کوششیں جاری رکھے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ملکی معیشت دوبارہ اس صورتحال سے دوچار نہ ہو جو چار، پانچ سال پہلے تھی، ہم نے گروتھ کو آگے لے کر جانا ہے اور اخراجات کو کنٹرول کرنا ہے، اس مقصد کیلئے آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے تاہم کسی مشکل صورتحال سے بچنے کیلئے جو اقدامات ضروری ہوں گے وہ کریں گے۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ریونیو گروتھ گذشتہ پانچ ماہ کے دوران 19.5 فیصد رہی، ہمیں ایسی ہی گروتھ کی ضرورت تھی، ایف بی آر ریونیو ہدف کے حصول کی جانب گامزن ہے جبکہ اخراجات کو کنٹرول میں رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کی شرح نمو گذشتہ سال 5.3 فیصد رہی جبکہ رواں سال کیلئے اس کا ہدف 6 فیصد ہے، زراعت، لارج سکیل مینوفیکچرنگ، خدمات کے شعبہ میں بہتری سمیت دیگر عوامل کے پیش نظر یہ ہدف حاصل ہونے کی توقع ہے۔

شاہد محمود نے ایکسٹرنل اکائونٹس کے حوالہ سے کہا کہ ہماری معیشت مشکل مرحلہ سے نکل گئی ہے، 2012-13ء سے پہلے کے مقابلہ میں اعداد و شمار میں بہتری ہوئی ہے، بیرونی کھاتوں کے متعلق ہمارے پاس مکمل پلان موجود ہے، بانڈ اور سکوک کے اجراء کا کامیاب تجربہ رہا۔ اس کے علاوہ مختلف بینکوں کے ساتھ پروگرام چل رہے ہیں، اس لئے امید ہے کہ انفلوژ کے حوالہ سے زیادہ مشکلات نہیں ہوں گی۔

انہوں نے کہا کہ ملکی معیشت کی ضرورت کے پیش نظر کیپٹل مارکیٹ میں جانا پڑا تو اس کی سہولت موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری برآمدات کی گروتھ میں پچھلے تین سالوں میں منفی رجحان تھا تاہم حکومت کی جانب سے برآمدات کیلئے خصوصی پیکج کے نتیجہ میں بہتری آئی ہے، برآمدات بڑھانے کے حوالہ سے جو اقدامات کئے گئے ہیں ان کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ترسیلات زر پچھلے سال 3.3 فیصد کم تھیں جبکہ رواں مالی سال کے پانچ ماہ کے دوران ان میں 1.3 فیصد کی گروتھ رہی ہے۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ مالیاتی خسارہ کی وجوہات کو دور کرنے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں، حکومت کی کوشش ہے کہ یہ پچھلے سال کی سطح تک نہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے محصولات میں گذشتہ سال 8 فیصد گروتھ رہی تھی تاہم اس سال گذشتہ تین سالوں کی طرح تقریباً 20 فیصد کی نمو متوقع ہے۔

انہوں نے کہا کہ اخراجات پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، مالیاتی خسارہ کو بڑھنے نہیں دیا جائے گا، اس حوالہ سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ ملکی معیشت کی بہتری کیلئے جو اقدامات ضروری سمجھتے ہیں وہ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں امن و امان اور توانائی کی صورتحال بہتر ہوئی ہے جس سے گروتھ پر مثبت اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ مالیاتی ضروریات مدنظر ہیں، برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کیلئے کئے گئے اقدامات کے اثرات آنا شروع ہو گئے ہیں، ڈی ویلیو ایشن کی وجہ سے درآمدات پر اثر پڑے گا، ایکسچینج ریٹ سے متعلق فیصلہ سٹیٹ بینک کی صوابدید ہے۔ انہوں نے کہا کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ سالوں میں کمی کا فائدہ صارفین کو منتقل کیا گیا تاہم اضافہ کی صورت میں بوجھ حکومت نے خود برداشت کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خطہ میں اب بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستان میں کم ہیں، افراط زر کو طے شدہ ہدف کے اندر رکھا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :