دریائے سندھ میں نایاب انڈس ڈولفن کی تعداد میں اضافہ، تعداد 1ہزار816تک پہنچ چکی ہے، ڈبلیو ڈبلیو ایف

جمعرات 14 دسمبر 2017 22:08

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2017ء) دریائے سندھ میں نایاب انڈس ڈولفن کی 5 سال بعد گنتی سروے کے نتائج سامنے آگئے ہیںجس کے مطابق دریائے سندھ میں نایاب انڈس ڈولفن کی تعداد 1 ہزار 8 سو 16 تک پہنچ چکی ہے۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ 5 سال میں ڈبلیو ڈبلیو ایف، محکمہ جنگلی حیات اور زولوجیکل سروے کی معاونت سے دریائے سندھ میں چشمہ بیراج سے لے کر سکھر بیراج تک نایاب انڈس ڈولفن کی تعداد کے متعلق سروے کیا گیا۔

سروے کے نتائج کے مطابق خطرے سے دو چار انڈس ڈولفن کی تعداد میں استحکام آنا شروع ہو گیا ہے۔ سروے کے لیے دریائے سندھ میں چشمہ بیراج سے سکھر بیراج تک 808 کلو میٹر میں انڈس ڈولفن کی گنتی کی گئی۔نتائج کے مطابق چشمہ بیراج سے تونسہ بیراج تک 170 ڈولفن پائی گئیں۔

(جاری ہے)

تونسہ بیراج سے گڈو بیراج تک 571 ڈولفن شمار کی گئیں جبکہ سب سے زیادہ گڈو بیراج اور سکھر بیراج کے درمیان ایک ہزار 75 ڈولفنز موجود ہیں۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق 5 برسوں میں 504 ڈولفنز کا اضافہ ہوا جس کے بعد دریائے سندھ میں اب 1 ہزار 8 سو 16 ڈولفنز موجود ہیں۔یاد رہے کہ ڈولفن شماری کے لیے کیا جانے والا سب سے پہلا سروے ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے سنہ 2001 میں کیا گیا تھا جس کے مطابق دریائے سندھ میں ڈولفنز کی تعداد 11 سو تھی۔بعد ازاں سنہ 2011 میں کیے جانے والے سروے نے دریائے سندھ میں ڈولفنز کی تعداد 1 ہزار 452 بتائی۔

واضح رہے کہ دریائے سندھ کی نابینا ڈولفن جسے سندھی زبان میں بھلن بھی کہا جاتا ہے، دنیا کی نایاب ترین قسم ہے جو صرف دریائے سندھ اور بھارت کے دریائے گنگا میں پائی جاتی ہے۔ یہ ڈولفن قدرتی طور پر اندھی ہوتی ہے اور پانی میں آواز کے سہارے راستہ تلاش کرتی ہے۔ماہرین کے مطابق دونوں ممالک کی ڈولفنز کی نسل میں معمولی سا فرق ہے جس کے باعث انہیں الگ الگ اقسام قرار دیا گیا ہے۔

عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق انڈس ڈولفن کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے اور ان کی تعداد میں تیزی سے کمی کے باعث اسے معدومی کے خطرے کا شکار جانداروں کی فہرست میں رکھا گیا ہے۔نایاب نسل کی یہ نابینا ڈولفن اکثر دریائے سندھ سے راستہ بھول کر نہروں میں آ نکلتی ہیں اور کبھی کبھار پھنس جاتی ہیں۔ اس صورت میں ان کو فوری طور پر نکال کر دریا میں واپس بھیجنا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ ان کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔

سرکاری عہدے داروں کے مطابق ماہی گیر دریائے سندھ میں زیادہ سے زیادہ مچھلیوں کو پکڑنے کے لیے زہریلے کیمیائی مواد کا استعمال کر رہے ہیں جو اس ڈولفن کی ہلاکت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔دوسری جانب ماہرین ماحولیات کے مطابق دریائے سندھ میں کیمیائی اور دیگر آلودگی کے ساتھ ساتھ ڈیموں کی تعمیر، ڈولفن کا مچھلیاں پکڑنے کے لیے بچھائے گئے جالوں میں حادثاتی طور پر پھنس جانا، میٹھے پانی کے بہا میں کمی واقع ہونا اور گوشت اور تیل حاصل کرنے کے لیے ڈولفن کا شکار اس کی نسل کو ختم کرنے کا باعث بن رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :