ڈی اے پی پر سبسڈی کی بجائے ٹیکسوں کی شرح کم کرنے سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اور پیداوار میں اضافہ ہوگا‘ اس حوالے سے مرتب کردہ سفارشات آئندہ ہفتے وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی

وفاقی وزیر قومی فوڈ سکیورٹی سکندر حیات بوسن کا قومی اسمبلی میں توجہ مبذول نوٹس پر جواب

جمعرات 14 دسمبر 2017 14:16

ڈی اے پی پر سبسڈی کی بجائے ٹیکسوں کی شرح کم کرنے سے کسانوں کو فائدہ پہنچے ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 14 دسمبر2017ء) وفاقی وزیر قومی فوڈ سکیورٹی سکندر حیات بوسن نے کہا ہے کہ ڈی اے پی پر سبسڈی کی بجائے ٹیکسوں کی شرح کم کرنے سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا اور پیداوار میں اضافہ ہوگا‘ اس حوالے سے سفارشات مرتب کرلی گئی ہیں جو وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں کھادوں کی قیمتوں کے حوالے سے محمود بشیر ورک اور دیگر اراکین کی جانب سے توجہ مبذول نوٹس پر وفاقی وزیر نے کہا کہ معزز اراکین نے اہم مسئلے کی طرف توجہ دلائی ہے۔

کھادوں کی دو قسمیں ہوتی ہیں جن میں ایک فاسفیٹک اور ایک نائیٹروجن یا یوریا ہے، اس وقت پاکستان میں یوریا کے سات پلانٹ کام کر رہے ہیں۔ پاکستان کو تقریباً چھ ملین ٹن کی ضرورت ہوتی ہے، ربیع کے سیزن میں اس کی طلب 3.03 ملین میٹرک ٹن جبکہ پیداوار اس سے کئی زیادہ ہے، جب موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو ہم اس کی درآمد پر مجبور تھے، اس وقت اس کی قیمت 1800 روپے فی من تھی، حکومتی اقدامات کے نتیجے میں اب ہر جگہ 1400 روپے من تک یہ دستیاب ہے، اس وقت ہماری ضرورت سے چھ لاکھ ٹن زیادہ کھاد موجود ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ کھاد کی قیمتوں کا تعین صوبوں کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔ تین صوبوں نے مشاورت اور سبسڈی کے عمل میں حصہ ڈالا ہے تاہم تحریک انصاف کی حکومت نے اپنا حصہ نہیں ڈالا، اب سندھ کی حکومت نے بھی سبسڈی کے خاتمہ کا کہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فاسفیٹک کھادوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے تقریباً 60 فیصد باہر سے درآمد کرتا ہے اس لئے اس کی قیمت کا تعین عالمی مارکیٹ کے مطابق کیا جاتا ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں بعض جگہ اس کی قیمت 2800 اور بعض جگہ 2900 روپے ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سبسڈی کی بجائے کھادوں پر ٹیکسوں کے خاتمے کیلئے کام کر رہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ کسانوں کو فائدہ پہنچے گا، حکومت نے اس ضمن میں سفارشات مرتب کرلی ہیں جو آئندہ ہفتے وزیراعظم کو پیش کی جائیں گی، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ کیڑے مار ادویات کی طرح ڈی اے پی پر سبسڈی کی بجائے ٹیکسوں کو ختم کیا جائے۔

قبل ازیں توجہ مبذول نوٹس پر محمود بشیر ورک نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جو نہ صرف خوراک فراہم کرتی ہے بلکہ ملک کے لئے زرمبادلہ بھی کماتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ڈی اے پی کی پیداوار بڑھانے کے لئے نئے کارخانے لگائے جائیں۔ وفاقی وزیر سکندر بوسن نے اس پر کہا کہ پاکستان میں اس وقت فاسفیٹک کھادوں کے دو کارخانے کام کر رہے ہیں اور وہ بھی زیادہ تر خام مال درآمد کر رہے ہیں۔