ناقص اشیائے خورونوش کی وجہ سے ملک پر بیماریوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے،

حکومت صحت کے شعبہ پر 300 ارب روپے خرچ کر رہی ہے،ڈائریکٹر جنرل پنجاب فوڈ اتھارٹی نور الامین

بدھ 13 دسمبر 2017 23:14

فیصل آباد۔13 دسمبر(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 دسمبر2017ء) پنجاب فوڈ اتھارٹی کھلی اشیائے خورونوش پر پابندی لگا کر دراصل کاروباری افراد کیلئے پروسیسنگ اور پیکنگ انڈسٹری کا ایک نیا دروازہ کھول رہی ہے جس سے فیصل آباد کی بزنس کمیونٹی کو بھی بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ یہ بات پنجاب فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل نور الامین مینگل نے آج فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری میں تاجروں اور صنعتکاروں کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ ناقص اشیائے خورونوش کی وجہ سے ملک پر بیماریوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکومت صرف صحت کے شعبہ پر 300 ارب روپے خرچ کر رہی ہے جبکہ تقریباً اتنی ہی رقم لوگ از خود بھی خرچ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں کھانے پینے کی کوئی چیز خالص نہیں مل رہی جس کی وجہ سے اب 18 سے 20 سال تک کی عمر کے بچوں میں دل کے امراض بڑھ رہے ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ نوے فیصد بیماریوں کا تعلق ہماری خوراک سے ہے جن کی وجہ سے بچوں اور خاص طور پر عورتوں میں معمول کی نشونماء نہیں ہو رہی۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے ایک سال قبل فوڈ اتھارٹی کا چارج سنبھالا۔ اس دوران 2 ہزار فوڈ سیفٹی افسر بھرتی کرنے کا ٹارگٹ دیا گیا۔ اس ہدف کو اس سال 31 دسمبر تک مکمل کرنا تھا لیکن ہم نے اسے 14 اگست تک مکمل کر لیا ہے اور اس وقت ان افسران کے علاوہ 300 گاڑیاں بھی دستیاب ہیں تا کہ اشیائے خورونوش کی تسلسل کے ساتھ چیکنگ کی جا سکے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک سال کی محنت کی وجہ سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کو عالمی سطح پر بھی تسلیم کیا جا رہا ہے اور غالباً موٹروے کے بعد پنجاب فوڈ اتھارٹی ایسا ادارہ ہے جو عین میرٹ کے مطابق کام کر رہا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس کے 10 ڈائریکٹوریٹ ہیں اور انہوں نے فوڈ اتھارٹی کو ہر گھر اور ہر شخص کی اتھارٹی بنا دیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فوڈ اتھارٹی نے 16 قوانین پاس کرائے ہیں جس سے صاف اور شفاف کاروبار کرنے والوں کو تقویت ملے گی۔ انہوں نے بتایا کہ نیچے سے اوپرجانے کی بجائے فوڈ اتھارٹی نے اوپر سے مسائل حل کرنے کی ابتداء کر دی ہے جس کے تحت کھانے پینے والے تمام اداروں میں تعلیم یافتہ فوڈ بزنس آپریٹر تعینات کئے جائیں گے۔

ا نہوں نے بتایا کہ بچوں اور عورتوں میں نشونماء کی کمی کے مسٴلہ پر قابو پانے کیلئے آئل، آٹا اور نمک میں اضافی اور صحت مند اجزاء ڈالنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی کا مقصد معاشی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی کرنا نہیں بلکہ ہم فوڈ انڈسٹری کو صحت منڈ خطوط پر استوار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں فروخت کرنے والی چنک فوڈ کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ ان میں سے بہت سی اشیاء کو طاقت دینے والی اشیاء کے نام سے فروخت کیا جا رہا تھا جبکہ ہم نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اپنے برانڈ پر واضح طور پر لکھیں کہ یہ دودھ ، مکھن یا آئس کریم نہیں انہوں نے کہا کہ اس اقدام سے بیرون ملک سے خوراک کے نام پر آنے والی مصنوعی اشیائے خورونوش کی حوصلہ شکنی ہوگی جبکہ اس کی جگہ ہماری زرعی معیشت کو تقویت ملے گی۔

انہوں نے کہا کہ پہلے چند سالوں میں انفورسمنٹ پر توجہ دی جائیگی جس کے بعد حالات معمول پر آنے کے بعد لوگوں میں آگاہی پھیلانے پر زیادہ توجہ دی جائیگی۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مرچوں اور دالوں کو رنگ لگانے کی بھی اجازت نہیں اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی کیونکہ یہ رنگ کینسر پیدا کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصالحے ، دالوں کی کھلی فروخت کے بعد کھلے دودھ پر بھی بتدریج پابندی لگا دی جائیگی جس سے پیکڈ دودھ کی انڈسٹری کو فروغ ملے گا۔

انہوں نے کہا کہ چھوٹے گوالوں کیلئے کوآپریٹو کی بنیاد پر ایک ماڈل بنا کر وزیر اعلیٰ کو پیش کر دیا گیا ہے جس سے چھوٹے گوالے بھی مشترکہ طور پر اپنا پلانٹ لگا اور چلا سکیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی سطح پر بڑے فارم ہاؤسز والوں کی ایک ایسوسی ایشن بھی بنائی جا سکتی ہے جس سے ان کے مفادات کا بہتر طور پر تحفظ کیا جا سکے گا۔ انہوںنے کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے اقدامات سے بچوں کی صحت میں نمایاں بہتری آئے گی جس سے ہسپتالو ں پر بھی دباؤ کم ہوگا ۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فوڈ لائسنس کنسلٹنٹس کا 120 افراد پر مشتمل پہلا بیچ 30 دسمبر کو پاس آؤٹ ہو رہا ہے جبکہ دوسرے بیچ کیلئے بھی 125 انٹرنیزریکروٹ کر لئے گئے ہیں ۔یہ خوراک کے بارے میں مشاورتی خدمات کے علاوہ فوڈ لائسنس بھی جاری کر سکیں گے۔ اس سے قبل خطبہ استقبالیہ میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شبیر حسین چاولہ نے فوڈ اتھارٹی کے مختلف اقدامات کو سراہا اور کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کو بھی نمائندگی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کو فوری طور پر فوڈ سیفٹی کے بارے میں ایس او پی جاری کرنا چاہیئے جس کی وسیع پیمانے پر تشہیر بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اشیائے خورونوش کی ٹیسٹنگ کیلئے لیبارٹریاں تحصیل کی سطح پر قائم کی جائیں تا کہ فوری طور پر ان اشیاء کو ٹیسٹ کرکے رپورٹ جاری کی جا سکے۔ مزید برآں موبائل لیبارٹریاں بھی ہونی چاہیئں تا کہ دیہی علاقوں میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کوفوری طور پر ٹیسٹ کیا جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ فوڈ اتھارٹی کو فوڈ سیفٹی کے معیار پر پورا اترنے والی اشیاء کیلئے خصوصی سرٹیفیکیٹ جاری کرنے چاہیئں تا کہ ان کو تیار کرنے اور فروخت کرنے والے پوری تسلی سے خالص اشیاء فروخت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ انفورسمنٹ کے حوالے سے چھاپہ مار پارٹیوں میں فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی بھی نمائندگی ہونی چاہیئے تا کہ ان چھاپوں کو بلاوجہ ہراسمنٹ کا نام نہ دیا جاسکے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت ہمارا کھانے پینے کا بہت سا کام ریڑھی چھابڑی والے کرتے ہیں ۔ ان کیلئے بھی ایس او پی بنایا جائے تا کہ وہ خالص اشیاء ہی فروخت کر سکیںاور ان کیلئے بھی سرٹیفیکیٹ کا حصول لازمی قرار دیا جائے۔ سوال وجواب کی نشست میں نائب صدر عثمان رؤف ، سید ضیا علمدار حسین ، محمد اسلم بھلی ، خواجہ عاصم خورشید، چوہدری محمد بوٹا، رانا طیب اور دیگر شرکاء نے بھی حصہ لیا۔

سینئر نائب صدر فاروق یوسف نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اس توقع کا اظہار کیا کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی کے مقامی ڈپٹی ڈائریکٹر فیصل آباد چیمبر کی متعلقہ قائمہ کمیٹی سے قریبی رابطہ رکھیں گے۔ آخر میں نائب صدر عثمان رؤف نے مہمان خصوصی نورالامین مینگل کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی اعزازی شیلڈ پیش کی۔

متعلقہ عنوان :