ایل این جی ٹرمینل کی بندش سے عوام اور تاجروں کے مصائب بڑھے ہیں

پیداوار اور برآمدات متاثر، ایل این جی سے لدے جہاز واپس بھیجے جا رہے ہیں، حکومت کو فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھر بند کرنے کا فیصلہ واپس لینا پڑا

بدھ 13 دسمبر 2017 23:04

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 دسمبر2017ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فور م وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر ،بزنس مین پینل کے سینئر وائس چیئر مین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ موسم سرما میںملک کے دوسرے ایل این جی ٹرمینل کی غیر معینہ مدت تک بندش سے عوام اور کاروباری برادری کے مصائب میں اضافہ ہوا ہے۔

گیس کی کمی سے کاروباری لاگت میں اضافہ ہوا ہے جس سے برآمدات متاثر ہو رہی ہیں۔چھ سو ایم ایم سی ایف ڈی کی استعداد کے حامل ایل این جی ٹرمینل کی بندش سے فرنس آئل سے مہنگی بجلی بنانے کا سلسلہ ختم کرنے کا حکومت کا منصوبہ بھی چوپٹ ہو گیا ہے اور فیصلہ واپس لینا پڑا۔ غیر معیاری ٹرمینل بنانے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔

(جاری ہے)

میاں زاہد حسین نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ صورتحال میں حکومت ایل این جی کے طویل المعیاد معاہدوں کے بجائے سپاٹ خریداری کو ترجیح دے تاکہ مزید نقصانات سے بچا جا سکے۔

ملک کا دوسرا ایل این جی ٹرمینل جس کا افتتاح بیس نومبر کو کیا گیا تھا سنگین تکنیکی خرابی کے باعث چند ہفتے بھی کام نہ کر سکا اور بند ہو گیاجس سے ملک میں گیس کی قلت پیدا ہو گئی ہے جبکہ پاکستان آنے والے ایل این جی سے بھرے ہوئے جہازوں کو واپس بھجوایا جا رہا ہے جس سے ملکی ساکھ متاثر ہو رہی ہے جبکہ ایل این جی پراجیکٹ کے بارے میں سوالات بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔

اس صورتحال میں پنجاب میں ایل این جی پر چلنے والے تین بڑے بجلی گھروں جن کی مجموعی پیداوار چھتیس سو میگاواٹ ہے کا مستقبل بھی غیر یقینی ہو گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت اور ایل این جی کے دوسرے ٹرمینل آپریٹرز کے مابین معاہدے کے مطابق ٹرمینل کی ایک دن کی بندش پر حکومت کو 2 لاکھ72 ہزار ڈالر روزانہ ادا کئے جائیں گے جس کی فوری وصولی کی جائے کیونکہ یہ ٹرمینل مقررہ تاریخ سے چھ ماہ کی تاخیر سے شروع ہوا اور چند دن چلا۔ انھوں نے کہا کہ حال ہی میں ایک ٹرمینل آپریٹر اور ایک گیس کمپنی نے ایک متنازعہ معاہدہ کیا ہے جس کی قانونی حیثیت پر ماہرین کو اعتراض ہے۔ اس کی تحقیقات کی جائیں۔

متعلقہ عنوان :