نا گو یا پروٹو کول کی پاکستا ن کی تا ریخ کی پہلی قو می رپو رٹ کو سب کی مشا ورت سے تیا ر کر نا خوش آئند ہے، مشاہد اللہ خان

اگر کوئی کمپنی نیم اور جو شاندہ کو کسی بھی برانڈ سے فر وخت کر تی ہے تو ہماری مقامی آبا دی کے آبا ئو اجداد کے دور سے اس کو استعمال کرنا سیکھا تو وہ کمپنی نا گو یا پروٹو کول کے تحت پا بند ہو گی، وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی

بدھ 13 دسمبر 2017 20:47

نا گو یا پروٹو کول کی پاکستا ن کی تا ریخ کی پہلی قو می رپو رٹ کو سب کی ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 13 دسمبر2017ء) وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی مشاہد اللہ خان نے کہا کہ نا گو یا پروٹو کول (NAGOYA PROTOCOL)کی پاکستا ن کی تا ریخ کی پہلی قو می رپو رٹ کو سب کی مشا ورت سے تیا ر کر نا خوش آئند ہے نا گو یا پروٹو کو ل سادہ الفا ظ میں یہ ہے کہ کسی جڑ ی بو ٹی کے فوائد جا نچتے ہو ئے اس کی کو ئی دوائی بنا ئی جا ئے تو اس دوائی کی ایجاد کے فوائد مقامی لوگوں کو بھی دیئے جا ئیں جس نے صد یو ں پہلے اس کے استعما ل کو دریا فت کیا تھا اور اگر کو ئی کمپنی یا ادارہ اس کو بین الاقو می منڈی میں فر وخت کر ے تو اس کے منا فع میں مقا می آبا دی کو ان کی رضا مند ی سے جا ئز حصہ دیا جائے وہ بدھ کو نا گو یا پروٹو کول کی رپورٹ کی تقریب سے خطاب کررہے تھے انہوں نے کہا کہ اس کی مثال اس طرح ہے جیسے ہما رے لو گ صد یو ں سے نیم کے استعمال کو جا نتے ہیں یا نز لہ زکام کے لیے جو شا ندہ کو ۔

(جاری ہے)

اگر کوئی کمپنی نیم اور جو شاندہ کو کسی بھی برانڈ سے فر وخت کر تی ہے تو ہماری مقامی آبا دی کے آبا ئو اجداد کے دور سے اس کو استعمال کرنا سیکھا تو وہ کمپنی نا گو یا پروٹو کول کے تحت پا بند ہو گی کہ اس مقا می آبادی جس نے ان ادویا ت کا استعما ل ایجاد کیا اس کمپنی کے منا فع میں جا ئز حصہ وصو ل کر ے اس کو عملی جا مہ پہنانے کے لیے ایک مو ثر قانو ن سا زی ضروری ہے جس میں نہ صر ف مقا می آبا دی کی رضا مند ی ، منا فع میں ان کا حصہ بلکہ کمر شل کمپینا ں جو اِس کو ساری دُنیا میں فر وخت کر نا چا ہتی ہیں اُن کے لا ئسنس کے اجراء کے طر یقہ کا روغیر شامل ہیں۔

اس وقت تک پاکستان سمیت دُنیا کے 104 ممالک بشمعوُل EU,جاپان ، انڈیا وبنگلہ دیشن وغیر ہ اس بین الاقومی معاہدہ پر دستخط کر چکے ہیں لہذا ہمیںچا ہیے کہ پا کستا ن میں اس سلسلے میں صوبائی قانو ں سازی کی جائے اور ہما رے آبا و،ْاجدا د کے بنا ئے ہو ئے نسُخے تما م بنی نو ع انسان کے فا ئد ے کے لیے ایک قا نو نی دائرہ کا ر میں رہتے ہو ئے مہیا کیے جا ئیں ۔

اس سلسلے میں پا کستان کی ادویات سا ز کمپینو ں ، حکیموں اور خصو صًًا وہ جا معا ت جہاں فا رمیسی پڑھائی جا تی ہے گزارش ہے کہ آگے بڑ ھیں اور اس قانو ن سا زی کو عملی جا مہ پہنانے کے لیے وزارتِ مو سمیا تی تبد یلی کا ساتھ دیں۔یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ قبل اس کے ہما رے پڑوسی ممالک جن نسخو ں پر اپنا کلیم (CLAIM)داخل کر کے فوائد حاصل کر یں اور پا کستا ن بو جوہ اِن فوا ئد سے محر وم رہے موسمیاتی وزارت نے اس سلسلے میں کا فی محنت کی اور ایک طو یل مُشاورت کے بعد ما ڈل بر ائے نا گویا پر وٹو کو ل جس کو ماڈل قانون برائے نا گو یا پروٹوکول جس کو ما ڈل ABS کا عنوان دیا گیا تیا ر کرکے تما م صوبو ں کو ارسال کر دیا ہے یہ آئینی اعتبار سے سراسر ایک صوبائی معاملہ ہے لہذا میں تما م صوبائی حکو متوں سے گزاش ہے کہ اس قانو ن سا زی کو جلد از جلد اپنی اپنی اسمبلیوں سے پا س کروائیں ۔

دیگر صوبائی قوانین کی نسبت نا گویا پروٹو کو لکی قا نون ساز ی ایک نا زک اور تکنیکی معاملہ ہے کیو نکہ اس میں بیرونی کمپینو ںسے لیے جا نے والے منا فع کی شر ح اورمقامی آبادی کا حصہ کاتناسب ہر صوبے میں مختلف ہو اتو اس میں پیچید گیاں آسکتی ہیں۔ عباس شاہد

متعلقہ عنوان :