سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

نیب سے شریف فیملی کے مبینہ جرم کو ثابت کر نے کے لیے شواہد کی تفصیلات طلب کرلیں عدالت کوبتایا جائے کہ اس کیس میں کیاجرم سرزد ہوا ہے اگر اسحق ڈار کے اعترافی بیان کو ہٹایاجائے تونیب کے پاس کون سے وہ شواہد موجود ہیں ، جوناقابل تردید ہوں ،جے آئی ٹی نے کچھ کیا نہ نیب نے ،یہ صرف کہا نیاں ہیں کہ پیسے ادھریا ادھرچلے گئے،سپریم کورٹ

منگل 12 دسمبر 2017 22:00

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 12 دسمبر2017ء) سپریم کورٹ نے منی لانڈرنگ کے حوالے سے حدیبیہ پیپر ملز کیس کی سماعت کل بدھ کی صبح تک ملتوی کرتے ہوئے نیب سے شریف فیملی کے مبینہ جرم کو ثابت کر نے کے لیے شواہد کی تفصیلات طلب کرلی ہیں اورکہاہے کہ عدالت کوبتایا جائے کہ اس کیس میں کیاجرم سرزد ہوا ہے اگر وزیرخز انہ اسحق ڈار کے اعترافی بیان کو ہٹایاجائے تونیب کے پاس کون سے وہ شواہد موجود ہیں ، جوناقابل تردید ہوں ،جے آئی ٹی نے کچھ کیا نہ نیب نے ،یہ صرف کہا نیاں ہیں کہ پیسے ادھریا ادھرچلے گئے، پراسیکیوشن چارج بتائے، 1992ء کے بعد 2017ء ختم ہونے کوہے مگر اب تک الزامات واضح نہیں، بیانات چھوڑیں عدالت کودستاویزات فراہم اور شواہد بتائی جائیں۔

عدالت نے استفسارکیاکہ کس قانون کے تحت اسحاق ڈار کا بیان کسی دوسرے شخص کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے 17سال پرا نے حدیبیہ کیس کو اب کسی جانب نمٹانا چاہیے ، نیب کو حدیبیہ پیپرز کیس میں منی ٹریل ثابت کرنا ہوگی ، منگل کو جسٹس مشیر عا لم کی سربراہی میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مظہر عالم میا ں خیل پر مشتمل تین رکنی بینچ نے حدیبیہ پیپرز ملز کیس دوبارہ کھولنے کے حوالے سے نیب کی جانب سے دائر اپیل کی سماعت کی، اس موقع پر بنچ کے سربراہ نے نیب کے پرا سیکیوٹر کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ نیب کی اپیل کے زا ئد المیعاد ہو نے پر عدالت کولا ئل دیں ، جس پر ایڈیشنل پر ا سیکیوٹر عمران الحق نے عدالت کوبتایا کہ پانامہ کیس میں عدالتی حکم کے تحت جے آئی ٹی تشکیل دی گئی تھی جس کی رپورٹ میں ملزمان کے خلاف کچھ نئے شواہد سا منے آئے ہیں یہ شواہد بہت مضبوط ہیں جس کی بنا پر لاھور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دا خل کی گئی ہے ، ان کامزید کہناتھا کہ ریکارڈ سے ثابت ہوتا ہے کہ شریف خاندان نے ستمبر 1991 ء میں منی لانڈرنگ کا آغاز کیا۔

(جاری ہے)

اس سلسلے میں ابتدائی طور پر سعید احمد اور مختار حسین کے اکاونٹ کھولے گئے، وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا 164 کے تحت دیا گیا بیان واضح کرتا ہے کہ کس طر ح منی لانڈرنگ کی گئی،اسحاق ڈار نے جعلی اکاونٹس کو اپنے بیان میں تسلیم کیا ہے انہوں نے مزید کہاکہ حدیبیہ پیپرز ملزکیس دوبارہ کھولنے کی سفارش جے آئی ٹی نے کی کیونکہ منی ٹریل حدیبیہ پیپرز ملزکیس سے جڑی ہوئی ہے، تاہم مئی 1998 ء میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں کے بعد تمام فارن کرنسی اکاونٹس منجمد کرکے ملزمان نے بینکوں سے اپنا پیسہ نکلوا لیا تھا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ اس معاملے میں جے آئی ٹی نے کچھ کیا ہے اور نہ نیب نے، نیب کی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے آپ ہمیں بتائیں کہ اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی ٹھوس شواہد موجود ہیں پراسیکیوشن نے عدالت میں چارج بتانا ہوتا ہے ، ہمیں وہ بتا یا جائے کہ کسی میں جرم کیا ہے ،اسحاق ڈار کا بیان بطور گواہ تواستعمال ہوسکتاہے لیکن بطور ثبوت نہیں، ہمارے سامنے بیانات چھوڑیں شواہد پیش کئے جائیں جے آئی ٹی نے صرف اپنی رائے دی تھی بتایا جائے کہ مجرمانہ عمل کیا ہے ہمارے ساتھ کھیل نہ کھیلیں،حدیبیہ کیس فوجداری مقدمہ ہے اس لیے جر م بتایا جائے کہ کیا جرم ہواہے ، ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں اسحاق ڈار کا بیان کس قانون پر دوسرے کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ پانامہ فیصلے کے بعد نیب کے اجلاس میں اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو اوپن کر نے کے لیے اپیل دا خل کی گئی ہے ، جسٹس مظہر عالم میا ں خیل نے پراسیکوٹر نیب سے سوال کیا کہ کیا حدیبیہ کے حوالے سے پانامہ کیس کے فیصلے میں ہدایات دی گئی تھیں، تو عمران الحق نے کہا کہ حدیبیہ کا ذکر پانامہ فیصلے میں نہیں ہے جس پرجسٹس مشیر عالم نے ان سے کہا کہ اگرحدیبیہ کیس کاذکر پانامہ فیصلے میں نہیں توکس طرح اس فیصلے کو حدیبیہ کے ساتھ جوڑیں گے، جے آئی ٹی سفارسات کی روشنی میں کیا عدالت نے حدیبیہ کے بارے میں ہدایت جاری کی ہیں، عمران الحق نے بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ، لیکن لاھور ہائیکورٹ نے نیب ریفرنس کیخلاف فیصلہ تکنیکی بنیادوں پر دیا تھا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ بتا ئیں کہ اس کیس میں مجرمانہ عمل کیا ہے ممکن ہے یہ معاملہ انکم ٹیکس کا ہو۔

جسٹس مشیر عالم نے ان سے کہا کہ ہمیں بتائیںکہ حدیبیہ کا اکائونٹ کون چلا رہا ہی اگراکائونٹ آج آپریٹ نہیں ہورہا تو ماضی میں آپریٹ کرنے والے کا نام بتایا جائے،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسارکیا کہ نیب نے اس کیس میں اب تک کیا تحقیقات کی ہیں ، بینک کا ریکارڈ جھوٹ نہیں بولتا بینک ملازمین کے بیانات ثانوی ہیں،ہمیں تحریری ثبوت دیں کہ کیا نیب نے حدیبیہ پیپرز کے بارے میں انکم ٹیکس پر سوال کیا کیا ڈائریکٹرز سے پوچھا گیا فاضل وکیل نے بتایا کہ ہم نے سوال نامہ بھیجا ہے جو ابھی ریکارڈ پر نہیں ہے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہائیکورٹ نے 2013 ء میں کہا تھا کہ نیب مذاق بنا رہی ہے 2017 ء میں اب پھر ہمیں مذاق والی بات کہنا پڑ رہی ہے یاد رکھیں کہ پانامہ کا فیصلہ آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت سنایا گیا ، اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کیاشواہد ہیں جسٹس مشیر عالم نے ان سے کہاکہ کیا اسحاق ڈار کے بیان کی تصدیق کرلی گئی ہے ، نیب کے وکیل عمران الحق نے بتایا کہ اسحاق ڈار نے بطور وعدہ معاف گواہ بیان دیا تھا انہو ں نے شریف فیملی کے لیے جعلی اکائونٹس کھو لنے اور پیسے ایک اکائونٹ سے دوسرے اکائونٹ میں بھجوائے ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پیسے ادھر سے ادھر چلے گئے یہ کہانیاں ہیں پراسیکیوشن نے چارج بتانا ہوتا ہے ہم آپ سے ملزمان پر لگایا جانے والا الزام پوچھ رہے ہیں۔

فا ضل وکیل نے بتایا کہ ملزمان کے خلاف جب کیس بنائے گئیے اس وقت وہ عوامی عہدوں پر فائز تھے جس کا انہوں نے غلط استعمال کیا اس وقت پیسے نکلوائے گئے اور ایٹمی دھماکوں کے بعد فارن اوکانٹس منجمد کردیئے گئے تھے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ عدالت کو نیب آرڈیننس کے سیکشن 9 کا بتایا جائے کہ اس کے تحت اس با رے میں کیارائے ہے۔ جس پرعمران الحق نے کہا کہ نیب آرڈینینس کے تحت ملزمان نے بادی النظرمیں کریمنل جر م کیا ہے جس پرجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ بادی النظر کا لفظ استعمال نہ کریں، بلکہ سیدھا موقف اختیار کریں۔

کیا نیب کو مزید تحقیقات کیلئے پچاس سال کا وقت درکارہو گا جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ 1992ء کے بعد آج 2017 ختم ہونے کوہے اس کیس کے الزامات اب واضح ہونے چاہئیں۔ملزمان پر الزام ہے جو اکائونٹس کھو لے گئے ان میں سے صدیقہ کے اکائونٹ سے پیسے کس نے نکلوائے نام بتائیں۔ عمران الحق نے بتایا کہ 164 کے بیان میں اسحاق ڈار نے رقم نکلوانے کا اعتراف کیا جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ایسی صورت میں متعلقہ دستاویزات سامنے ہونی چاہئیں۔

کیا حدیبیہ کے ڈائریکٹرز کو تمام سوالات دیے گئی عمران الحق نے بتایا کہ ہم نے ملزمان کو سوالنامہ بھیجا مگر جواب نہیں دیا۔ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ آپ کو مکمل منی ٹریل ثابت کرنا ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے کہا کہ اگرہم نیب کی باتیں مان لیں تو بھی مجرمانہ عمل عدالت کو بتانا ہوگا۔ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیں ہمیں کسی کی ذاتی زندگی میں کوئی دلچسپی نہیں نیب کی کہانی بار بار تبدیل ہورہی ہے، اسحاق ڈار کے اعترافی بیان کے علاوہ نیب کے پاس کوئی شواہد ہیں آخر اسحاق ڈار نے یہ سارا عمل کس فائدے کے لئے کیا وکیل نیب نے بتایا کہ اسحاق ڈار کو شریف فیملی کے لئے کام کرنے کے بدلے سیاسی فائدہ ہواجسٹس قاضی فائز عیسی نے ان سے کہا کہ عدالت کودستاویزات فراہم کریں بیانات کوچھوڑیں قانونی طور پر یہ بیان عدالت یا چیرمین نیب کے سامنے لیا جانا چاہئے تھا ، قانون سب کے لئے ایک ہے۔

بعد ازاں عدالت نے پرا سیکیوٹر نیب سے کہاکہ وہ عدالت کو منی ٹریل سے متعلق شواہد پر دلائل دیں ،ہمیں کوئی جلدی نہیں، اگرتاخیرکے معاملے کوعبورکرلیاتوممکن ہے بات کیس کے میرٹ پرآجائے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کو پرویز مشرف کی جانب سے با ہر بھجوانے کے کیا قانونی اثرات ہو سکتے ہیں، بعدازاں مزید سماعت ملتوی کر دی گئی۔

متعلقہ عنوان :