فاٹا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم حراستی مراکز گوانتاناموبے طرز کی جیلیں بن چکی ہیں ، این سی ایچ آر کو خودمختار بنایا جائے اور اسے فنڈ جمع کرنے کی اجازت دی جائے،

فاٹا کا بلیک ہول ریاست کی افغان پالیسی سے منسلک ہے ، اس پر انسانی حقوق کے ایجنڈے کے حصے کے طور پر نظرثانی کی جائے پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر کا اسلامی یونیورسٹی اور این سی ایچ ڈی کے زیر اہتما م تقریب سے خطاب

منگل 12 دسمبر 2017 20:41

فاٹا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم  حراستی مراکز گوانتاناموبے ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 دسمبر2017ء) پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاہے کہ فاٹا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قائم کئے گئے حراستی مراکز گوانتاناموبے طرز کی جیلیں بن چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ این سی ایچ آر کو خودمختار بنایا جائے اور اسے فنڈ جمع کرنے کی اجازت دی جائے۔ منگل کو انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی جانب سے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کرائی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہو ںنے کہا کہ فاٹا کا بلیک ہول ریاست کی افغان پالیسی سے منسلک ہے اس لئے اس پالیسی پر انسانی حقوق کے ایجنڈے کے حصے کے طور پر نظرثانی کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کا تعلق سول ملٹری تعلقات سے بھی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ ایوان کی دونوں جانب کے اراکین پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو خارجہ اور سکیورٹی پالیسی کا جمہوری احتساب کرے۔ انہوں نے کہا کہ جس آزادی سے میڈیا کے لوگوں پر تشدد ہو رہا ہے اسے ختم ہونا چاہیے اور این جی اوز پر یہ الزام لگانا بند کر دینا چاہیے کہ وہ بیرونی ایجنڈے پر عمل کر رہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ فیض آباد دھرنے میں ہجوم کی عملداری کی وجہ سے انسانی حقوق کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فیض آباد دھرنے میں ریاست اور معاشرے نے ایک ہجوم کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے جو قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق کے خلاف اقدام تھا۔ انہوں نے کہا کہ نفرت اور عدم برداشت کی سیاست نے انسانی حقوق پر غلبہ پا لیا۔ اس دن پاکستان ایک ملک نہیں رہا۔

انہوں نے کہا کہ ایک صفحے کی ہتھیار ڈالنے کی دستاویز کی وجہ سے انسانی حقوق خطرے میں پڑ گئے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ اس ایک واقعے کو نارمل نہیں سمجھا جائے گا اور اس کا اعادہ نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہیومن رائٹس کے لئے ہمارا عزم بہت پرانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب 1928ء میں ہندوستان کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ لوگ ایک آئین کا مسودہ تیار کریں تو اس میں سب سے پہلا آئیٹم انسانی حقوق تھا۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق پر عالمی ڈکلیریشن پر دستخط کرنے والے ممالک میں پاکستان بھی شامل تھا۔ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں انسانی حقوق کی ایک کمیٹی تھی جس کی سربراہی قائداعظم نے کی۔ انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق پر چند مثبت پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ جن میں این سی ایچ آر، کمیشن آن سٹیٹس آف وومن اور انٹی ریپ اور انٹی آنر کلنگ قوانین شامل ہیں۔

انہوں نے متنبہ کیا کہ زندگی اور اظہار کی آزادی کے حقوق ختم ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حق کو ماورائے عدالت قتل، زبردستی اغوا کئے جانے والے اور یکطرفہ طور پر سزائے موت دینے کے واقعات سے خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال میں پارلیمنٹ، سپریم کورٹ، زبردستی اغوا کئے جانے والے افراد کے بارے کمیشن اور این سی ایچ آر سب کے سب بے بس نظر آئے۔

انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کا حق تمام لیگل حقوق کا سرچشمہ ہے لیکن اس حق کو ریاستی اور غیرریاستی عناصر کی جانب سے حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئیڈیالوجی بریگیڈ نے مذہب سے متعلق قوانین کے غلط استعمال پر بحث و مباحثے کو روک دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سکیورٹی بریگیڈ بھی اسے قومی سلامتی کے نام پر زیر بحث لانے سے روکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ آزادی اظہار کو عدلیہ کے وقار کے نام پر بھی دبایا جا رہا ہے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ وہ اپنے حقوق کی خاطر کھڑے ہوجائیں۔

متعلقہ عنوان :