سراج الحق نے قبائل کو قومی دھارے میں لانے کیلئے حکومت کو 31 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دیدی، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی تالابندی کی دھمکی

سال نو کے آغاز پر اسلام آباد میں مستقل دھرنا دیتے ہوئے اسے ’’خیمہ بستی‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے گا ، ملک بھر سے کارکنان خیمے اور چادریں لے کر اسلام آباد آئیں گے ، شہروں کو بند نہیں کریں گے ،حکومت یاد رکھے قاضی حسین احمد کے ایک دھرنے سے اگلے دن حکومت چلی گئی تھی امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا دھرنے کے شرکاء سے خطاب

منگل 12 دسمبر 2017 19:41

سراج الحق نے قبائل کو قومی دھارے میں لانے کیلئے حکومت کو 31 دسمبر تک ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 12 دسمبر2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے قبائل کو قومی دھارے میں لانے کے لئے حکومت کو 31 دسمبر تک کی ڈیڈ لائن دیدی ، سال نو کے آغاز پر اسلام آباد میں مستقل دھرنا دیتے ہوئے اسے ’’خیمہ بستی‘‘ میں تبدیل کر دیا جائے گا ، ملک بھر سے کارکنان خیمے اور چادریں لے کر اسلام آباد آئیں گے۔

شہروں کو بند نہیں کریں گے ، ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی تالابندی کر دی جائے گی۔ حکومت یاد رکھے قاضی حسین احمد مرحوم کے ایک دھرنے سے اگلے دن حکومت چلی گئی تھی۔ وہ منگل کو چائینہ چوک جناح ایونیو اسلام آباد میں لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کر رہے تھے ۔ لانگ مارچ میں تمام قبائلی ایجنسیوں سے لوگ شریک تھے اور تیسرے روز یہ لانگ مارچ ٹیکسلا کے راستے فیض آباد سے ہوتا ہوا اسلام آباد میں داخل ہوا۔

(جاری ہے)

فاٹا کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے مطالبہ کے حق میں باب خیبر سے جماعت اسلامی کا لانگ مارچ تیسرے روز موسلادھار بارش میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچا، سینیٹر سراج الحق نے اعلان کیا ہے کہ ہم اپنے احتجاج اور دھرنوں کے ذریعے شہریوں کے لئے مشکلات پیدا نہیں کریں گے۔ حکمرانوں کو ان کے دفاتر میں نہیں بیٹھنے دیں گے۔ تمام قبائل کو مبارکباد دیتا ہوں۔

جمرود باجوڑ سے وزیرستان تک لوگ اس لانگ مارچ میں شریک ہیں۔ شدید بارش اور ٹھنڈ کے باوجود لوگوں کا جوش و خروش عروج پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں موسم ٹھنڈا ہو سکتا ہے مگر اپنے حقوق کے لئے قبائل کے جذبات گرم ہیں اور ٹھنڈا موسم گرم جذبات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ہم ایوان صدر وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمنٹ ہاؤس کے قریب کھڑے ہیں۔ انصاف و عدل کے لئے یہ لانگ مارچ یہاں آیا ہے یہ قبائل وہ قوانین چاہتے ہیں جو پورے پاکستان میں لاگو ہیں۔

اگر قبائل میں پاکستان کے قوانین نافذ نہیں کر سکتے تو پورے پاکستان کو فاٹا بنا دیں۔ قبائلی عوام کو بھی آئین و قانون کے مطابق نظام دیا جائے دونوں میں سے ایک کام کرنا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ حکمران طبقہ اور اشرافیہ کے بچے مزے کریں اور قبائل دربدر ہو کر ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوں۔ قبائل پینے کے صاف پانی، تعلیم، روزگار اور سڑک سے محروم ہیں عدالتوں میں ان کی شنوائی نہیں ہو سکتی۔

عدم انصاف کا یہ نظام مزید نہیں چل سکتا۔ 70 سالوں سے حکمران طبقہ کے مظالم برداشت کر لئے۔ ہمیشہ قبائل کو لڑایا گیا اور ظالمانہ نظام کو مسلط کئے رکھا۔ قبائل عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ناانصافی کی وجہ سے قبائلی علاقوں میں بدامنی اور دہشت گردی پیدا ہوئی ہے۔ اگر اب بھی قبائل کو حقوق نہ دیئے تو ان کے ہاتھ حکمران طبقہ کے گریبان پر ہوں گے۔ پوری قوم کو لے کر اسلام آباد آؤں گا۔

شہروں کو بند نہیں کریں گے بلکہ ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کی تالہ بندی کریں گے۔ سینیٹر سراج الحق نے مطالبہ کیا کہ فاٹا کو سی پیک میں حصہ دیا جائے صوبہ خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے۔ قومی مالیاتی کمیشن میں فاٹا کو نمائندگی دی جائے قابل تقسیم محاصل سے فاٹا کے لئے تین فیصد مختص کئے جائے ۔ ایف سی آر کو ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ قبائل میں پولیٹیکل ایجنٹ اور تحصیلدار کو مغل بادشاہ سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔

قبائلیوں کو 25,25 سالوں کے لئے جیل میں بند کر دیا جاتا ہے ان کے گھروں کو مسمار کر دیا جاتا ہے اور انہیں علاقہ بدر کیا جاتا ہے۔ ظالمانہ ایف سی آر کو مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہی نظام ہے جو افریقی ممالک سے امریکہ نے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر غلام بنایا اور ان پر تاریخ کے بدترین مظالم کئے۔ آج بھی قبائل کے ساتھ غلاموں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔

اسی ناانصافی کی وجہ سے قبائل میں غربت بڑھی ہے۔ گورنر سال میں ایک بار فاٹا کا دورہ کر کے اور عزت کی پگڑی سر پر رکھ کر سمجھتا ہے کہ وہ بڑا انسان بن گیا ہے۔ گورنر کو بڑا بننے کے لئے قبائل کو حقوق دینا ہوں گے۔ بدامنی اور دہشت گردی کی بنیادی وجہ ایف سی آر ہے۔ قبائل باصلاحیت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں کہا جاتا ہے کہ فاٹا کو اس لئے ضم نہیں کر سکتے کہ بھارت اور افغانستان ایکشن کر سکتے ہیں کیا حکمران اور افغانستان سے ڈرتے ہیں کیا وہ فاٹا کو بھارت اور افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں سارے قبائل چاہتے ہیں کہ انہیں عزت سے زندگی گزارنے کے لئے خیبرپختونخوا میں شامل کیا جائے۔

اب بھی قومی اسمبلی کے ایجنڈے پر نامکمل بل آیا تھا مگر شرم کی بات ہے کہ حکومت نے اس جزوی ریلیف کو بھی واپس لے لیا۔ 12 دسمبر 2017ء کو ڈیڈ لائن دے رہے ہیں کہ 31 دسمبر تک خیبرپختونخوا میں فاٹا کو ضم کر دیا جائے۔ ایسا نہ ہوا تو قبائل خیمے اور چادریں لے کر اسلام آباد آئیں گے مستقل دھرنا دیں گے ان دھرنوں کا آغاز بھی جماعت اسلامی نے کیا اور جب قاضی حسین احمد نے اسلام آباد میں دھرنا دیا تو اگلے دن حکومت ختم ہو گئی تھی۔ مستقل دھرنا دیتے ہوئے اسلام آباد کو خیمہ بستی میں تبدیل کر دیں گے۔