وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت وزیراعلی ہائوس میں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں سندھ میں صاف پانی مہیا کرنے کیلئے اہم اجلاس طلب

اجلاس میں کراچی سمیت صوبے بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صنعتی پانی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے امور پر غور کیا گیا

پیر 11 دسمبر 2017 21:44

وزیر اعلی سندھ کی زیر صدارت وزیراعلی ہائوس میں سپریم کورٹ کی ہدایت ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2017ء) وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کی زیر صدارت وزیر اعلی ہائوس میں سپریم کورٹ کی ہدایت کی روشنی میں سندھ میں صاف پانی مہیا کرنے کے لیے اہم اجلاس طلب کیاگیا جس میں کراچی سمیت صوبے بھر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صنعتی پانی کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے امور پر غور کیا گیا ۔اجلاس میں صوبائی وزرا ڈاکٹر سکندر میندھرو، جام خان شورو، فیاض بٹ، چیف سیکریٹری رضوان میمن، محمد علی ملکانی، چیئرمین منصوبہ بندی و ترقی محمد وسیم، وزیراعلی سندھ کے پرنسپل سیکریٹری سہیل راجپوت، سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو، سیکریٹری آبپاشی سید جمال شاہ، سیکریٹری بلدیات، ایم ڈی واٹر بورڈ، وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی، سیکریٹری محکمہ پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ و دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اجلاس کا مقصد سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق صاف پانی کی رسد کو یقینی بنانا، میونسپل کا فضلہ کو کینالز میں جاری نہ کرنا، کے فور اور ایس تھری منصوبوں کی تکمیل کا ایک وقت مقرر کرنا ہے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ ہماری مدد کررہی ہے، ہمیں ان مسائل کو سنجیدگی، سچائی اور اپنا کام سمجھ کر صاف پانی عوام کو مہیا کرنا ہے اور گندے پانی کو ٹریٹ کرنا ہے، وزیر اعلی سندھ نے متعلقہ افسران کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ متعلقہ افسران وزرا کی نگرانی میں بہترین طریقے سے کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ تمام ادارے جو پانی کی فراہمی و نکاسی کی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں اپنی سمت درست کریں۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ بہتر پانی کی فراہمی کے حوالے سے اگلے ہفتے میں ایک اور اجلاس بلاں گا جس میں تمام متعلقہ افسران اپنی ڈیڈ لائینز مجھے بتائیں گے۔ وزیراعلی سندھ نے تمام متعلقہ افسران کو واضح پیغام دیتے ہوئے کہا کہ میں ہر ضلع کا ٹارگٹ سیٹ کرنا چاہتا ہوں اور ہر ضلع اپنا اپنا ٹارگٹ دے۔

انہوں نے سختی سے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صاف پانی کی رسائی و گندے پانی کی الگ فراہمی، پانی کو صاف کرکے گندا پانی نہروں میں بہانا، کوٹڑی میں غیر معالجہ ناقابل اعتماد فضلہ کا نہروں میں بہا کو روکنا ایسے کام ہیں جس میں کوئی غفلت برداشت نہیں کروں گا۔انہوں نے کہا کہ میں خود ہر ضلع کا دورہ کروں گا۔ وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ مجھے صاف پانی کا مسئلہ ہر صورت حل کرنا ہے،میں پاکستان نیوی، کے پی ٹی، صنعتکاروں و دیگر اداروں سے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مدد لوں گا،شہر کو صاف پانی ہی مہیا کرنا نہیں بلکہ تقسیم کے نظام کو بھی پروفیشنل بنیادوں پر اپ گریڈ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پانی کی تقسیم کا نظام ، بحالی اور مزید علاقوں کو بھی نیٹ ورک میں لانے کا بھی ٹائم فریم چاہیے۔وزیر بلدیات نے وزیر اعلی سندھ کو آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں پانی کی تقسیم کے نظام میں کافی مسائل ہیں۔وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ جب ہم تقسیم کا نظام بحال کرنے جارہے ہیں تو کیوں نہ اس کو جدید ٹیکنالوجی اورجدید طریقوں سے استوارکریں اوراس کام میں این ای ڈی اور مہران یونیورسٹی ہماری مدد کرے۔

انہوں نے کہا کہ علاقہ وار پانی کی تقسیم کا نظام بھی اپ گریڈ کرنا چاہتا ہوں،ایک ایک علاقہ، جیسے کہ گلشن اقبال، یونیورسٹی روڈ، ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد و دیگر علاقوں میں کام شروع ہونا چاہیے اورمجھے یہ کام ہنگامی بنیادوں پر کرنا ہے۔وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ نے جام خان شورو سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے پر کتنی لاگت آئے گی اور کتنے عرصے میں مکمل ہوگااوراس منصوبے کے متعلق مجھے فوری رپورٹ ارسال کریں۔

انہوں نے کہا کہ پانی کی فراہمی کے لیے ایک الگ انجنیئرنگ یونٹ مقرر کیاجائے گا کیونکہ اس مسئلے کو پروفیشنل بنیادوں پر حل کرنا ہے۔جام خان شورو نے وزیر اعلی کو آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ 446 ملین روپے پانی میں کلورین ملانے اور لیب کے سازو سامان کے لیے مختص ہیں جس پر کام شروع ہوگا،58 ملین روپے فلٹر پلانٹس کی بحالی اور فزیبلٹی کے لیے 3500 ملین روپے مختص ہیں۔

6025 ملین روپے 65 ایم جی ڈی منصوبے کے ٹینڈر کھلوانے کے لیے مختص ہیں جوکہ 22 دسمبر کو کھلے گا، اور یہ منصوبہ جون 2020 میں مکمل ہوگا۔1620 ملین روپے 100 ایم جی ڈی منصوبے پر کام کی رفتار بڑھانے کے لیے جاری کیے ہیں۔جس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ پانی گھروں میں ایسے پہنچے جس کو ابال کر پیا جاسکیاوریہ کام انہیں لائنوں پر ہونا چاہیے۔

وزیر اعلی سندھ نے کراچی واٹر بورڈ کو ٹاسک دیتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتہ کے اندر کراچی واٹر بورڈ اپنی رپورٹ پیش کرے کہ وہ کتنا پانی شہر کو مہیا کریں گے، فلٹریشن کی حیثیت کیا ہوگی، پانی کی تقسیم میں بہتری کیسے ممکن ہوگی۔انہوں نے کہا کہ اگر سارے کام اگلے 2 سال تک مکمل ہوں گے تو انکے لیے کتنا فنڈز درکار ہوگا۔وزیر اعلی سندھ نے احکامات جاری کرتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ سے کراچی کے ہر شہری کے گھر تک پانی پہنچانے کے لیے (1) بڑی تعداد میں پانی کی فلٹریشن (2) موجودہ نظام کی اپگریڈیشن (3) فلٹر پلانٹس کی اپگریڈیشن اور نئے پلانٹس لگانا (4) مجوزہ کاموں کی تکمیل کا عرصہ (5) اس پر کتنی لاگت آئے گی۔

یہ رپورٹ مجھے ہفتہ کے اندر اندر چاہیے۔انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے ساتھ این ای ڈی مدد کرے گی اور پاکستان نیوی کو میں درخواست کروں گا کہ وہ بھی آپ کی مدد کرے۔واٹر بورڈ نے اجلاس کو آگاہی دیتے ہوئے کہا کہ 500 ایم جی ڈی نکاسی کا پانی آتا ہے، ہمارے پاس تین ٹریٹمنٹ پلانٹ ہیں۔ٹریٹمنٹ پلانٹ (اول) کی اپگریڈیشن کا کام جاری ہے جبکہ ٹریٹمنٹ پلانٹ (تھری) کے تین پمپ مرمت ہونے ہیں اور ان منصوبوں پر کام جاری ہے جس پر وزیر اعلی سندھ نے کہا کہ700 ایم جی ڈی اگلے دو سال میں ٹریٹ ہونا چاہیے، اس کی تیاری کے متعلق منصوبہ بندی سے مجھے آگاہ کیا جائے ۔

انہوں نے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ آج سے 5 ہزار سال قبل موہن جو دڑو میں نکاسی کا نظام بنایا گیا تھا، پھر آج کیوں واٹر بورڈ شہر میں مثر نکاسی نظام بنانے سے قاصر ہے وزیر بلدیات نے آگاہی دیتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ ایس تھری کے تحت ایک مربوط نظام بنانے جارہے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ 33320 ملین روپے کی لاگت سے آر سی سی انٹرسیپٹر لیاری، 22741 ملین روپے آر سی سی انٹرسیپٹر ملیر ندی کے منصوبے تعمیر ہونگے۔

ایس ٹی پی (اول) کے اپگریڈ ہونے سے روزانہ 51 ایم جی ڈی سے 100 ایم جی ڈی پانی کی ٹریٹمنٹ ہوگی۔ایس ٹی پی (تھری) کی گنجائش 54 ایم جی ڈی سے بڑھاکر 180 ایم جی ڈی ہوجائے گی،جب کہ ایس ٹی پی (فور) جس کی گنجائش 180 ایم جی ڈی ہوگی وہ کورنگی میں تعمیر ہوگا۔اس وقت یاسین آباد سے میرپور تک گندے پانی کی نکاسی کی لائن زیر تعمیر ہے۔یاسین آباد منصوبے پر 90 فیصد کام ہوچکا ہے اور جون 2018 میں یہ مکمل ہوجائے گا۔

ٹریٹمنٹ پلانٹ (اول) اور ٹریٹمنٹ پلانٹ (تھری) کی اپگریڈیشن جون 2018 تک مکمل ہوجائے گی۔وزیر اعلی سندھ نے کراچی واٹر بورڈ کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ مجھے شہر کے نکاسی کے نظام پر ایک جامع و مربوط پلان تیار کرکے دیں۔میں چاہتا ہوں کہ صنعتوں کا فضلہ واٹر ٹریٹ کرکے دوبارہ صنعتی مقاصد کے استعمال میں لایا جاسکے۔جرمنی میں صنعتوں کا پانی دوبارہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔

اجلاس میں بتایا گیا کہ یہ کام یہاں ہوسکتا ہے لیکن یہ مہنگا پڑے گا۔اس پر وزیر اعلی سندھ نے ہدایت کی کہ کوئی سستی ٹیکنالوجی خریدی جائے،ہم اپنا پانی کیوں ضائع کریں ۔اسپتالوں کے فضلہ کو بھی سائنٹفک بنیادوں ضائع کیا جائے،اسپتالوں کی مائع فضلہ بھی اہم نالوں میں بہتا ہے جو ٹھیک نہیں ہے۔اس کے لیے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ سیکریٹری صحت فضل اللہ پیچوہو نے اجلاس کو بتایا کہ دو ٹریٹمنٹ سسٹم کراچی کے لیے، ایک نواب شاہ جبکہ ایک سکھر کی اسپتالوں کے لیے لگانے کا منصوبہ حتمی مراحل میں ہے، لاڑکانہ کے ٹریٹمنٹ پلانٹ پر کام جاری ہے۔

وزیر اعلی سندھ نے وزیر صحت کو ہدایت کی کہ مجھے ان مسائل کی نشاندہی کرکے ان کا حل بشمول متوقع لاگت اور ٹائم فریم بناکر ہفتے کے اندر تفصیلی رپورٹ پیش کیے جائیں ۔ ایم ڈی واسا نے وزیراعلی سندھ کو بتایا کہ حیدرآباد میں 60 ایم جی ڈی کا پانی دستیاب ہے، 30 ایم جی ڈی پانی کی فراہمی کا فلٹر پلانٹ کسی حد تک کام کررہا ہے، اس پلانٹ کے لیے چار نئے کلورین دیواریں نصب کی جارہی ہیں (نئی لیب پر کام تیزی سے جاری ہی)۔

حیدرآباد میں تِین ٹریٹمنٹ پلانٹس ہیں ناردرن سیورج ٹریٹمنٹ پلانٹ 9 ایم جی ڈی، سدرن پلانٹ 7 ایم جی ڈی، ویسٹرن پلانٹ 2.50 ایم جی ڈی ہیں، ان کی کل ٹریٹمنٹ صلاحیت 18.50 ایم جی ڈی ہے۔ وزیراعلی سندھ نے ہدایت دی کہ حیدرآباد میں مہران یونیورسٹی شہر میں پانی کی ٹریٹمنٹ، ڈسٹریبیوشن اور انڈسٹریل افلوینٹ کی ٹریٹمنٹ میں واسا کی مدد کرے۔