ایوان بالا، سینیٹر اعتزاز احسن کی مقبوضہ بیت المقدس کے معاملہ پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز کی حمایت

پیر 11 دسمبر 2017 21:21

ایوان بالا، سینیٹر اعتزاز احسن کی مقبوضہ بیت المقدس کے معاملہ پر پارلیمان ..
اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 11 دسمبر2017ء) ایوان بالا میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے معاملہ پر پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلانے کی تجویز کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں مشترکہ اجلاس یا پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس بلا کر صورتحال پر غور کرنا چاہئے۔

پیر کو ایوان بالا کے اجلاس میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ اسرائیل کی تاریخ کے حوالے سے بہت طویل بات ہو سکتی ہے، ہمیں اپنی طاقت اور کمزوریوں کو معروضی انداز میں دیکھنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ میں ٹرمپ کا حامی نہیں، دنیا کی بدقسمتی ہے کہ ٹرمپ امریکہ کا صدر بن گیا، اس کا نظریہ اپنے آپ سے شروع ہو کر اپنے ملک کے شہریوں، ہم عصروں اور اپنے ملک سے باہر کی دنیا کے لئے خطرناک ہے۔

(جاری ہے)

اس کے نظریات خطرناک ہیں لیکن گزشتہ دہائیوں میں مسلمانوں کو سب سے زیادہ کس نے قتل یا شہید کیا ہے، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے۔ مسلمان نے ہی مسلمان کو مارا ہے، خواہ افغانستان ہو یا عراق، بدھ مذہب جو امن کی بات کرتا تھا، وہ بھی اب مسلمانوں کو مار رہا ہے، ان کا جابرانہ پن کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ساری دنیا ہی شارٹ سرکٹ ہو رہی ہے، ہم یہودیوں کے خلاف نہیں، صیہونیوں کے خلاف ہیں۔

ہم عیسائیت کے خلاف نہیں، حضرت عیسیٰؑ اور حضرت موسیؑ الله کے پیغمبر ہیں، ہم نہرو کے خلاف نہیں ہیں، ہم ہندو توا کے خلاف ہیں، ہم اسلام کے پیروکار ہیں، مسلمان ہیں لیکن انتہاء پسند اسلام کے پیروکار نہیں ہیں۔ ہم تنگ نظری کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں اس مسئلے کو اٹھانے کی تجویز کی حمایت کرتا ہوں تاکہ دنیا کی توجہ حاصل کی جا سکے۔

مسلمانوں کو دوبارہ مسلمان بنانے اور مسلمانوں کو واجب القتل قرار دینے والا رویہ رکھنے سے ہم دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ہمیں جدید علوم حاصل کرنا پڑیں گے۔ دنیا نے جدید علوم حاصل کئے اور ہم چھوٹے چھوٹے مسائل پر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں، دونوں ایوانوں کو مل کر اس مسئلے پر غور کرنا چاہئے اور کمیٹی بنا کر عملی اقدامات تجویز کرنے چاہئیں۔ 41 ملکوں کی فوج یا 56 اسلامی ممالک اگر اپنے عوام سے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کرالیں اور اس پر عمل درآمد کرالیں تو فائدہ ہو سکتا ہے لیکن ہمیں سوچنا چاہئے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں پارلیمان یا پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس بلانا چاہئے۔

متعلقہ عنوان :