سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز کیس پرٹی وی ٹاک شو پر بات کرنے پر پابندی عائد کر دی

کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی شواہد دکھائے جائیں، سپریم کورٹ ہمارے لئے ہر کیس ہائی پروفائل ہے،التواء کی درخواست کس نے دی،کیوں ناں چیئرمین نیب کو بلا لیں،کوئی افسر عدالت میں پیش نہیں ہوتا تو مستعفی ہو،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریمارکس عدالت نے نیب کی جانب سے کیس التواء کی درخواست مسترد کر دی ،مزید سماعت کل پھر ہوگی

پیر 11 دسمبر 2017 19:10

سپریم کورٹ نے حدیبیہ پیپرز کیس  پرٹی وی ٹاک شو پر بات کرنے پر پابندی ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 11 دسمبر2017ء) سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے حدیبیہ پیپر زکیس ملتوی کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کے حوالے سے ٹی وی ٹاک شوز پر پابندی عائد کر دی ا ورپیمرا کو عدالتی حکم پر عملدرآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی ۔عدالت نے ریمارکس دیئے ہیں کہ کرپشن کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی شواہد دکھائے جائیں،مزید سماعت کل (منگل کو) ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کر دی۔

تفصیلات کے مطابق پیر کے روز حدیبیہ پیپرز ملزکیس کھولنے سے متعلق نیب کی اپیل پر سماعت جسٹس مشیرعالم کی سربراہی میں عدالت عظمی کا تین رکنی بینچ نے کی جبکہ دوران سماعت ڈپٹی چئیرمین نیب امتیاز تاجور بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے اس موقع پر نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا ہے کہ گزشتہ سماعت کے عدالتی حکم کے مطابق حدیبیہ پیپر ملز کیس سے متعلق دستاویزات عدالت میں جمع کروادی ہیں،دستاویزات میں فریقین کی ملک سے روانگی واپسی اورعوامی عہدہ پر رہنے کی تفصیلات شامل ہیں اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ نیب کی جانب سے کس تاریخ کوریفرنس دائر کیا گیا جس پر نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ 27مارچ 2000کوریفرنس دائر کیا گیا، 25نومبر2007کوملزمان ملک میں واپس آئے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ کہ نیب کاموقف ہے ملزمان ریفرنس پراثراندازہوئے ہیں، ہماراسوال ہے کہ معاملہ سردخانے میں کیوں رکھا گیا، جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیاملزمان کراچی میں زیرحراست تھے جبکہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے استفسار کیا کہ کیااٹک قلعہ کے اندرکیس چلایا گیا، کیااٹک قلعہ میں عدالت بھی ہے، یہ کیس اٹک قلعہ میں کیوں چلایاگیا کچھ وجوہات تو ہوں گی اسکی اس پر نیب کے وکیل عمران الحق نے کہا کہ وجوہات میرے علم میں نہیں ہے، جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ کوئی حکمنامہ ہوگاجس کے تحت کیس جیل میں چلایاگیا، ہارون پاشا کو 265kکے تحت بری کیاگیالیکن وجوہات نہیں لکھیں، اُس وقت پاکستان کوکون سی حکومت چلارہی تھی، اس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ اس وقت ملک کے چیف ایگزیکٹوپرویزمشرف تھے، جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملزم اٹک میں تھاتوطیارہ ہائی جیکنگ کیس کراچی میں کیسے چلا، جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا جلاوطنی کی کوئی قانونی حیثیت ہے، مفرور کا تو سنا تھا جلا وطنی کا حکم کیسا ہی نواز شریف کی جلاوطنی کا حکم کس نے دیا، اس پر نیب پراسکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ معاہدے کے تحت نواز شریف کو باہر بھیجا گیا ہے اور خود ملک سے باہر گئے تھے، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ خود باہر گئے تھے تو مفرور کی کارروائی ہونی چاہیے تھی، اس کیس کے اندر نئے قواعد بنائے گئے، جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ کیا کل حکومت کسی دوسرے ملزم کو معاہدہ کر کے باہر جانے دے گی، جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ کیا نیب نے جلاوطنی سہولت کار ی پراکسی کیخلاف کارروائی کی اس پر نیب کے وکیل نے بتایا کہ نواز شریف جیل کی کسٹڈی میں تھے نوازشریف سپریم کورٹ کے حکم کے بعد ملک میں واپس آئے اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اگرنوازشریف خود گئے ہوتے توواپسی کے لیے درخواست نہ دیناپڑتی،جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ ملزمان کی وطن واپسی پرگرفتارکیوں نہیں کیا گیا ہی اس پر نیب کے وکیل عمران الحق کا کہنا تھا کہ کیس چلنے کے بعد عدالت ہی گرفتاری کاحکم دے سکتی تھی،17جولائی2011کوچئیرمین نیب کی جانب سے کیس بحالی کی دوبارہ درخواست دی گئی، 17اکتوبر2011کوملزمان نے لاہورہائی کورٹ میں درخواست دائرکی، 18اکتوبر2011کوملزمان کوحکم امتناعی دے دیا گیا اس پر جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ لاہورہائی کورٹ نے ریفرنس بحالی پرکوئی حکم امتناعی نہیں دیا، نیب نے اپنے رویے سے ریفرنس ختم کروایا،اگرہائی کورٹ کاحکم کالعدم بھی کردیں پھربھی ملزمان کے خلاف ریفرنس توبحال نہیں ہوگا، اس پر نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ ریفرنس بحالی کی درخواست پراحتساب عدالت سماعت کرے گی، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہائی کورٹ نے ریفرنس پرکاروائی سے روکاتھابحالی سے نہیں، کیاحکم امتناعی دینے پرایک جج پرالزام لگارہے ہیں اس پر نیب کے وکیل ناصر مغل نے کہا کہ ہم کسی جج پرکوئی الزام نہیں لگارہے، جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ اصل ریفرنس کیا تھا،جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ کچھ جعلی بینک اکاونٹس بنائے گئے تھے، جسٹس قاضی نے کہا کہ شکایت کس کی تھی ملزمان کی جانب سے دبائوکیسے ہوااس پردلائل دیں، پہلے کیس کودوبارہ کھولنے پردلائل دیں نیب کے وکیل نے کہا کہ پانامہ کیس میں سپریم کورٹ نے پانامہ اورحدیبیہ کاتعلق کا کہا ہے، 5جون 2013کونوازشریف وزیراعظم بنے، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ نیب موقف کے مستقبل میں سنجیدہ نتائج نکلیں گے، کیایہ ایک خطرناک مثال نہیں ہوگی، ایسے توہرکوئی چئیرمین کے جانے کے بعدایساموقف اپنائے گا، کیاپانامہ نہ ہوتا توپھرآپ نے کچھ نہیں کرناتھا پانامہ فیصلے کاآپریٹوحصہ پڑھیں، پانامہ فیصلے میں حدیبیہ بارے کچھ نہیں کہا گیا،اس صرف یہ لکھاگیاہے جب نیب اپیل دائرکرے گی تودیکھاجائے گا، اگرسپریم کورٹ نے حکم دیاہے توپھرہم سماعت کیوں کررہے ہیں، آپ اقلیتی فیصلے کاحوالہ دے رہے ہیں جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ اقلیتی رائے ہم پرلازمی نہیں ہے جسٹس قاضی فائز کا کہنا تھا کہ ہم آپ سے کہہ چکے ہیں اقلیتی فیصلہ نہ پڑھیں۔

(جاری ہے)

اتنا وقت ضائع کیا بات آخر میں وہی آ گئی، اگر پانامہ اقلیتی فیصلے کا اب حوالہ دیا تو آپکو نوٹس جاری کریں گے، جنرل امجد دور میں دائر ریفرنس پر عبوری نہیں لکھا گیا، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ نیب کی عبوری ریفرنس دائر کرنے کی وجوہات کیا تھیں، نیب کے وکیل کا کہنا تھا حدیبیہ تحقیقات میں آنے والی درخواست پر کسی کے دستخط نہیں تھے، شکایات ذرائع سے موصول ہوئی، دیکھنا ہے ریفرنس میں مجرمانہ عمل کیا ہے، ہمارا رخ افسردہ تاریخ کی طرف نہ موڑیں، نہیں جاننا چاہتے صدر کون تھا۔

چیئرمین مین کون تھا، نیب ریفرنس میں لفاظی ہے، کرپشن، کرپشن کرپشن لفظ نہیں، شواہد دکھائیں، غیر قانونی عمل بتائیں، کرپشن بتائیں،کرپشن، کرپشن کہنے سے کرپشن ثابت نہیں ہوتی،کیس میں نئے شواہد کیا ہیں، نیب انکم ٹیکس کے کیس نہیں اٹھاسکتی،مجرمانہ عمل دکھانا ہو گا، چار جعلی اکاؤنٹس کھولے گئے، جعلی اکاؤنٹس کیسے کھولے گئے ،کیابینک انکا تھا، بطور جج میرے لئے اکاؤنٹ کھولنا آسان نہیں، اس پر نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ اسحا ق ڈار نے بینک افسران کو اپنے پاس بلا کر کام لئے، جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ جعلی اکاؤنٹ کیا ہوتا، جعلی اکاؤنٹ کھولنے میں بینک عملہ بھی ملوث ہو گا،اس پر نیب کے وکیل عمران الحق کا کہنا تھا کہ1993 ،98 تک اکاؤنٹس کھولے گئے،جسٹس مشیر عالم نے استفسار کیا کہ کیا جے آئی ٹی نے کوئی نئی چیزدریافت کی، اس پر نیب پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں نئی چیزیں بھی سامنے آئی ہیں، بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت منگل کو ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کرتے ہوئے لائیو ٹی وی شو میں حدیبیہ کیس پر بات کرنے پر پابندی عائد کردی ہے اور پیمرا کو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا حکم دیدیا ہے، عدالت نے حکم نامہ میں کہا گیا ہے کہ حدیبیہ کیس کی صرف کورٹ پروسیڈنگ رپورٹ کی جائے، قبل ازیں سپریم کورٹ نے نیب کی جانب سے کیس کھولنے سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی سماعت کی اور التوائ کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کا کہنا تھا کہ کیس کے التوائ کی یہ کوئی بنیاد نہیں ہے، نیب پراسکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرکا عہدہ خالی ہے، مناسب ہوگا کہ اس اہم مقدمے میں پراسیکیوٹر خود پیش ہوں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ عدالت کا مذاق نہ اڑائیں، کیوں ناں آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں، ہمارے لئے ہر کیس ہائی پروفائل ہے، جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ پراسیکیوٹر کی تقرری سے ہمارا کوئی تعلق نہیں، جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ اگر نیب سے کوئی لاء افسر اس کیس میں پیش نہیں ہوسکتا تو استعفیٰ دیدیں،التواء کی درخواست کی ہدایت کس نے دی نیب کے وکیل نے بتایا کہ التواء کی درخواست کا فیصلہ چیئرمین نیب کی سربراہی میں اجلاس میں ہوا، پراسیکیوٹر نیب کی سمری بھیجی جا چکی ہے جلد منظور ہوجائے گی، اس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی کا کہنا تھا کہ تو پھر کیوں ناں ہم چیئرمین نیب کو بلا لیں۔

۔