احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیدیا ،ْ

تین روز میں 50 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد کو بھی ضبط کرلیا جائے گا ،ْعدالت کا انتباہ اسحاق ڈار کے سینے میں اب بھی تکلیف ہے ،ْ دل کی شریان میں بھی معمولی مسئلہ ہے ،ْ وکیل نے میڈیا رپورٹ پیش کر دی

پیر 11 دسمبر 2017 16:21

احتساب عدالت نے اسحاق ڈار کو اشتہاری قرار دیدیا ،ْ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 دسمبر2017ء) قومی احتساب بیورو کی جانب سے اسلام آباد کی احتساب عدالت میں دائر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو اشتہاری قرار دیتے ہوئے تین روز میں 50 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے ۔ پیر کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے ریفرنس کیس کی سماعت کی ۔

احتساب عدالت میں سماعت کا آغاز ہوا تو اسحق ڈار کی جانب سے ان کے وکیل نے احتساب عدالت میں نئی میڈیکل رپورٹ پیش کی ۔اسحٰق ڈار کے وکیل قوسین فیصل مفتی نے نئی میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ اسحق ڈار کو اشتہاری قرار نہ دیا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ میڈیکل رپورٹ کے لیے ہمیں اسحق ڈار کی ایم آر آئی رپورٹ کا انتظار تھا جبکہ ان کے سینے میں اب بھی تکلیف ہے اور دل کی شریان میں بھی معمولی مسئلہ ہے۔

انہوںنے کہاکہ اسحق ڈار کے ابھی مزید ٹیسٹ ہونے ہیں جبکہ نیب نے پچھلی رپورٹس کی ابھی تک تصدیق نہیں کروائی ہے۔نیب کے خصوصی استغاثہ عمران شفیق نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کو تمام عدالتی کارروائی کا معلوم ہے اس لیے ہمیں وارنٹ لندن بھجوانے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ ہر میڈیکل رپورٹ دوسری رپورٹ سے مختلف ہے جبکہ اسحق ڈار کو دل کی کوئی تکلیف نہیں ہے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسحٰق ڈار کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا بعد ازاں عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے اسحق ڈار کو اشتہاری قرار دے دیا ۔ عدالت نے سابق وزیر خزانہ محمد اسحق ڈار کو تین روز میں 50 لاکھ روپے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اگر مقررہ وقت میں ضمانتی مچلکے جمع نہیں کرائے گئے تو ضامن کی جائیداد کو بھی ضبط کرلیا جائے گااور سماعت کو 14 دسمبر تک کیلئے ملتوی کردیا۔

خیال رہے کہ پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو کو اسحق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔اس سے قبل 4 دسمبر کو سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عدالت میں میڈیکل رپورٹ پیش کرتے ہوئے اشتہاری قرار دینے کی کارروائی روکنے کی استدعا کی تھی۔عدالت میں پیش کردہ میڈیکل رپورٹ کے حوالے سے اسحٰق ڈار کے وکیل کا کہنا تھا کہ آئندہ ہفتے تک معلوم ہو جائے گا کہ ان کے موکل کو کیا بیماری ہے۔

29 نومبر کو احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں بھی اسحٰق ڈار پیش نہیں ہوئے تھے جبکہ ان کے وکیل نے 50 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے ضبط نہ کرنے کے معاملے پر دلائل دیئے تھے۔24 نومبر 2017 کو اسحٰق ڈار کے ضامن احمد علی قدوسی نے عدالت کے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا اور عدالت سے استدعا کی تھی کہ ملزم کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے 3 ہفتوں تک کی مہلت دی جائے۔

یاد رہے کہ 21 نومبر 2017 کو مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کے سلسلے میں عدالت میں پیشی کیلئے اسحق ڈار کی اٹارنی اور نمائندہ مقرر کرنے کی درخواست مسترد کردی تھی اور انہیں مفرور قرار دے دیا تھا۔اسحٰق ڈار کے وکیل نے اپنے موکل کی 16 نومبر کی میڈیکل رپورٹ بھی عدالت میں پیش کی تھی جس پر وکیلِ استغاثہ نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی گزشتہ رپورٹ اور موجودہ رپورٹ میں تضاد موجود ہے۔

بعد ازاں احتساب عدالت نے خزانہ اسحٰق ڈار کی عدالت میں غیر حاضری کی وجہ سے ناقابلِ وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ 8 نومبر کو ہونے والی سماعت میں بھی عدم پیشی پر ان کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری برقرار رکھنے کا حکم دیا تھا۔واضح رہے کہ اسلام آباد کی احتساب عدالت نے اسحٰق ڈار کے خلاف نیب کی جانب سے ریفرنس کی آٹھویں سماعت میں عدم پیشی پر اسحٰق ڈار کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے تھے۔اس سے قبل اسحق ڈار 23 اکتوبر کو عدالت میں پیش ہوئے تھے جہاں نجی بینک کے ملازمین عبدالرحمن گوندل اور مسعود غنی نے عدالت کے سامنے اپنے بیانات قلمبند کرائے تھے۔

متعلقہ عنوان :